ایران اسرائیل کشیدگی—عالمی بحران کے خدشات

[post-views]
[post-views]

فی الوقت ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری مسلح تصادم بظاہر دونوں ممالک تک محدود دکھائی دیتا ہے، لیکن عالمی سطح پر شدید تشویش پائی جاتی ہے کہ اگر فریقین نے تحمل کا مظاہرہ نہ کیا تو یہ کشیدگی تیزی سے ایک بڑے علاقائی یا حتیٰ کہ عالمی بحران میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی فورمز پر جنگ بندی اور سفارتی راستہ اپنانے کی اپیلیں کی جا رہی ہیں، تاہم اگر یہ اپیلیں بے اثر ثابت ہوئیں تو اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

ایران مسلسل یہ مؤقف اختیار کیے ہوئے ہے کہ اسرائیلی حملوں میں امریکہ نے براہِ راست یا بالواسطہ کردار ادا کیا ہے، حالانکہ واشنگٹن اس کی تردید کرتا ہے۔ ایران کا ماننا ہے کہ خلیج میں موجود امریکی فوجی اڈے اور انفراسٹرکچر اسرائیل کے حملوں میں معاون ثابت ہوئے ہیں۔ اگر ایران نے امریکی فوجی تنصیبات، سفارت خانوں یا اتحادی ٹھکانوں پر حملہ کیا تو امریکہ کو مجبوراً عسکری ردعمل دینا پڑ سکتا ہے، خاص طور پر اگر کوئی امریکی شہری ہلاک ہو جائے۔ ایسی صورتحال میں امریکہ کا جنگ میں براہِ راست شریک ہونا مشرق وسطیٰ میں ایک نئے اور غیر متعین تنازع کو جنم دے سکتا ہے۔

اگر ایران اسرائیل کو براہِ راست نقصان نہ پہنچا سکا تو اس کے لیے خلیجی ریاستیں ایک آسان ہدف بن سکتی ہیں۔ ماضی میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر حملوں کی مثالیں موجود ہیں۔ ایران، جن خلیجی ممالک کو امریکی یا اسرائیلی حامی سمجھتا ہے، ان پر دوبارہ حملے کر سکتا ہے، خاص طور پر توانائی اور بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنا کر۔ چونکہ ان ممالک میں امریکی فوجی اڈے موجود ہیں، اس لیے وہ بھی امریکہ سے دفاعی مدد طلب کر سکتے ہیں، یوں یہ تنازع پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔

اسرائیل کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ کیا وہ ایران کی جوہری صلاحیت کو مکمل طور پر ختم کر سکتا ہے۔ اگر ایران کی حساس جوہری تنصیبات، جو زمین کے نیچے گہرائی میں موجود ہیں، محفوظ رہیں، اور اگر ایران کا افزودہ یورینیم کا ذخیرہ سلامت رہا، تو ایران تیزی سے جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی جانب بڑھ سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں ایرانی قیادت مزید سخت گیر اور غیر لچکدار ہو سکتی ہے، جو خطے میں طویل اور مسلسل حملوں اور جوابی حملوں کا سبب بنے گی۔

معاشی سطح پر بھی اس تنازع کے انتہائی مہلک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اگر ایران آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی کوشش کرے تو عالمی توانائی کی ترسیل بری طرح متاثر ہو گی، جس سے تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کریں گی۔ یمن میں موجود حوثی باغی بھی بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ دنیا پہلے ہی مہنگائی اور معاشی دباؤ کا شکار ہے، اور اس قسم کی کسی بھی پیش رفت سے عالمی منڈی مزید غیر مستحکم ہو جائے گی۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے کا فائدہ روس جیسے ممالک کو ہوگا، جو یوکرین جنگ کے لیے مزید مالی وسائل حاصل کر سکتے ہیں۔

اگر اسرائیل اپنے اعلان کردہ مقصد میں کامیاب ہو کر ایران کی اسلامی حکومت کو گرا دیتا ہے تو اس کے بعد پیدا ہونے والا سیاسی و انتظامی خلا بھی شدید غیر یقینی صورتحال کا باعث بنے گا۔ عراقی اور لیبیا کی مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ طاقتور حکومتوں کے خاتمے کے بعد ملک کس طرح خانہ جنگی، بدامنی اور غیر ملکی مداخلت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ایران کا معاملہ ان دونوں ممالک سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور خطرناک ہو سکتا ہے، جس کے اثرات صرف ایران تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پورے خطے کو عدم استحکام کا شکار کر سکتے ہیں۔

یہ تمام منظرنامے اس بات پر منحصر ہیں کہ آنے والے دنوں میں ایران کس حد تک جوابی کارروائی کرتا ہے، اور امریکہ کس حد تک اسرائیل کو روکنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ اگر دونوں فریقین میں سے کسی نے بھی حد سے تجاوز کیا تو یہ تنازع ایک مکمل جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے، جس کے اثرات نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔ سفارتکاری کی کھڑکی ابھی مکمل طور پر بند نہیں ہوئی، لیکن وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور عالمی برادری کو فوری اور فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos