مومنہ قاضی
پاکستانی معاشرہ ایک تضاد کا شکار ہے، جہاں ایک طرف اسلامی و آئینی طور پر عورت کو اپنی مرضی سے نکاح کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے، تو دوسری طرف سماجی، قبائلی اور خاندانی روایات اس حق کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ عورت کا اپنی پسند سے نکاح نہ صرف اس کا انفرادی حق ہے بلکہ یہ ایک ایسا معاشرتی اور تہذیبی پیمانہ بھی ہے جو کسی قوم کی فکری، اخلاقی اور آئینی بلوغت کو ظاہر کرتا ہے۔
اسلامی احکامات واضح طور پر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بالغ اور عاقلہ عورت کی رضامندی کے بغیر نکاح جائز نہیں۔ نبی کریم ﷺ کی احادیث سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ نکاح کے لیے عورت کی رضا بنیادی شرط ہے۔ اگر والدین یا سرپرست زبردستی نکاح کریں تو وہ نکاح باطل قرار دیا گیا ہے۔ اسلامی فقہ کی تمام مکاتبِ فکر میں یہ اصول مسلم ہے کہ عورت کو نکاح کے فیصلے میں آزاد ہونا چاہیے۔
آئینِ پاکستان بھی عورت کو ذاتی آزادی، مساوات اور عزت سے جینے کا حق دیتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 9، 25 اور 35 کے تحت عورت کو اپنے ذاتی فیصلے خود کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے اس اصول کو تسلیم کر چکے ہیں کہ عورت کی مرضی سے نکاح ایک قابلِ قبول قانونی عمل ہے، جسے ریاستی تحفظ حاصل ہونا چاہیے۔
Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com
مگر پاکستانی سماج میں غیرت، قبائلی رسوم، اور خاندانی دباؤ کی وجہ سے عورت کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے۔ معاشرتی ڈھانچہ مردانہ غلبے پر استوار ہے جو عورت کی خودمختاری کو جرم سمجھتا ہے۔ اس رویے کی اصلاح ناگزیر ہے اگر ہم ایک مہذب اور ترقی یافتہ ریاست کی جانب بڑھنا چاہتے ہیں۔
اصلاحات کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات ضروری ہیں:
ریاستی ادارے زبردستی نکاح کے خلاف مؤثر کارروائی کریں۔
دینی طبقہ عورت کی نکاح میں آزادی پر اسلامی اصولوں کے مطابق شعور بیدار کرے۔
میڈیا، نصاب اور سوشل پلیٹ فارمز پر آگاہی مہمات چلائی جائیں۔
والدین کو سکھایا جائے کہ مشورہ زبردستی نہیں بلکہ رہنمائی ہوتی ہے۔
عورتوں کے لیے قانونی، سماجی اور نفسیاتی مدد فراہم کرنے والے سپورٹ نیٹ ورکس قائم کیے جائیں۔
عورت کو نکاح کے فیصلے کا اختیار دینا نہ صرف اسلامی فریضہ ہے بلکہ ایک ایسے انصاف پسند معاشرے کی بنیاد بھی ہے جو انسانی عظمت، آزادی اور مساوات پر یقین رکھتا ہے۔
ریپبلک پالیسی کے مزید تحقیقی مضامین کے لیے ملاحظہ کیجیے: 🔗 RepublicPolicy.com