نور مقدم قتل کیس: سپریم کورٹ نے ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار رکھی

[post-views]
[post-views]

سپریم کورٹ نےظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار رکھی

سپریم کورٹ نے منگل کے روز نور مقدم کے قتل کے مقدمے میں مجرم ظاہر جعفر  کی سزائے موت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا،  جب کہ ریپ کے الزام میں ظاہر جعفر کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کردی۔

ظاہر جعفر  پر الزام تھا کہ اس نے 20 جولائی کو سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی، نور مقدم کو بے رحمی سے قتل کر کے اس کا سر تن سے جدا کیا۔ عدالت نے اس سنگین جرم پر زاہر کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنائی تھی۔

عدالتی کارروائی ایک تین رکنی بینچ نے سنی، جس کی صدارت جسٹس ہاشم کاکڑ نے کی، جبکہ دیگر اراکین میں جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس علی باقر نجفی شامل تھے۔ زاہر جعفر کی وکالت بیرسٹر سلمان صفدر نے کی، جبکہ مقتولہ کے والد کی جانب سے معروف وکیل شاہ خاور عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے دلائل دیے۔

پس منظر

نور مقدم کی لاش 20 جولائی 2022 کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف-7/4 میں ایک رہائش گاہ سے برآمد ہوئی۔ اس واقعے کے بعد مقتولہ کے والد کی مدعیت میں ظاہر جعفر کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 (سوچا سمجھا قتل) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر کے مطابق، شوکت مقدم نے بتایا کہ نور نے فون کر کے کہا تھا کہ وہ کچھ دوستوں کے ساتھ لاہور جا رہی ہے اور ایک دو دن میں واپس آ جائے گی۔ اسی روز دوپہر کے وقت ظاہر جعفر نے شوکت مقدم کو فون کر کے اطلاع دی کہ نور اس کے ساتھ موجود نہیں ہے۔

اسی رات تقریباً دس بجے، مقتولہ کے والد کو کوہسار پولیس اسٹیشن سے فون آیا کہ ان کی بیٹی کو قتل کر دیا گیا ہے۔ پولیس نے شوکت مقدم کو ظاہر جعفر کے گھر لے جایا گیا، جہاں انہوں نے دیکھا کہ ان کی بیٹی کو تیز دھار ہتھیار سے وحشیانہ طور پر قتل کیا گیا ہے اور اس کا سر تن سے جدا کر دیا گیا ہے، جیسا کہ ایف آئی آر میں درج ہے۔

شوکت مقدم نے عدالت سے مطالبہ کیا تھا کہ زاہر جعفر کو اس سنگین جرم کی پاداش میں سزائے موت دی جائے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos