ترجمان دفتر خارجہ نے اپنی بریفنگ میں واضح کیا کہ سیلاب سے متعلق کسی بھی امداد مانگنے کا فیصلہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی صوابدید ہے۔ وزارتِ خارجہ کی ذمہ داری یہ ہوگی کہ وہ این ڈی ایم اے اور دیگر متعلقہ اداروں کے فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنائے اور ضرورت پڑنے پر سفارتی اور بین الاقوامی سطح پر ہر ممکن معاونت فراہم کرے۔
ترجمان نے اس موقع پر بھارت کے طرزِ عمل پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ بھارت نے دریاؤں میں ممکنہ سیلابی صورتحال سے متعلق چند معلومات سفارتی ذرائع کے ذریعے فراہم کی ہیں، تاہم یہ معلومات نامکمل اور تفصیلی نہ تھیں۔ اس طرح کا رویہ دو طرفہ تعاون کے تقاضوں کے خلاف ہے، کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان قائم معاہدے کے تحت بروقت اور درست معلومات کی فراہمی ضروری ہے تاکہ بروقت اقدامات کیے جا سکیں۔
ترجمان دفتر خارجہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ بھارت نے اس حوالے سے سندھ طاس معاہدے کے تحت طے شدہ طریقۂ کار، یعنی انڈس واٹر کمشنر کے ادارے، کو استعمال نہیں کیا۔ یہ طرزِ عمل معاہدے کی روح اور قانونی تقاضوں کے منافی ہے۔ ترجمان نے واضح کیا کہ پاکستان کا مؤقف یہ ہے کہ بھارت کو سندھ طاس معاہدے کی تمام شقوں پر مکمل اور غیر مشروط طور پر عمل درآمد کرنا چاہیے تاکہ دونوں ممالک میں پانی کے معاملے پر شفافیت، اعتماد اور تعاون کو یقینی بنایا جا سکے۔