وفاقی حکومت کی مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم نے ملک کی سیاسی فضا میں نئی گرمی پیدا کر دی ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے حکومت آئینی ڈھانچے میں چند اہم تبدیلیاں لانے کا ارادہ رکھتی ہے جن میں آئینی عدالت کے قیام، نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کی تقسیم میں ردوبدل، اور آرٹیکل 243 میں ترمیم شامل ہے جو مسلح افواج کی کمان سے متعلق ہے۔
ذرائع کے مطابق مجوزہ ترمیم میں ایگزیکٹو مجسٹریسی نظام کی بحالی، ججوں کے تبادلوں کے اختیارات، اور صوبائی مالی خودمختاری سے متعلق چند نئی شقیں بھی شامل کی جا رہی ہیں۔ ان تجاویز پر نہ صرف اپوزیشن بلکہ مختلف صوبائی جماعتوں نے بھی سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ ترمیم صوبائی خودمختاری کو کمزور کر سکتی ہے اور 18ویں آئینی ترمیم کے بعد حاصل ہونے والے اختیارات واپس وفاق کو منتقل کرنے کی کوشش ہے۔
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما رضا ربانی نے خبردار کیا ہے کہ 27ویں ترمیم کے ذریعے اگر صوبوں کے اختیارات محدود کیے گئے تو اس کے منفی اثرات وفاقی اکائیوں کے تعلقات پر پڑیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی نظام کی مضبوطی کا دارومدار آئینی توازن پر ہے اور اگر اسے چھیڑا گیا تو سیاسی اور ادارہ جاتی بحران جنم لے سکتا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق حکومت کو اس حساس آئینی مسئلے پر جلد بازی کے بجائے قومی سطح پر وسیع مشاورت کرنی چاہیے تاکہ کسی بھی قسم کے آئینی بحران سے بچا جا سکے۔











