اسلام آباد: سپریم کورٹ نے لاہورہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے الیکشن ٹریبونلز کے حوالے سےالیکشن کمیشن کی استدعا مستر دکر دی۔
الیکشن کمیشن نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو معطل کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
عدالت نے لارجر بنچ کی تشکیل کیلئے معاملہ تین رکنی کمیٹی کو بھجوا دیا، اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کر دیا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے الیکشن ٹریبونلز کی تشکیل کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کی، الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر اور پی ٹی آئی وکیل سلمان اکرم راجا عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
عدالت میں الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ یہ آئین کے آرٹیکل 219(سی) کی تشریح کا معاملہ ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں کیس کے تھوڑے حقائق بتا دیجیے جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ 14 فروری کو الیکشن کمیشن نے ٹریبونلز کی تشکیل کیلئے تمام ہائیکورٹس کو خطوط لکھے، ٹریبونلز کی تشکیل الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ تمام ہائی کورٹس سے خطوط کے ذریعے ججز کے ناموں کی فہرستیں مانگی گئیں، خطوط میں ججز کے ناموں کے پینلز مانگے گئے، لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے 20 فروری کو 2 ججز کے نام دیئے گئے، دونوں ججز کو الیکشن ٹریبونلز کیلئے نوٹیفائی کردیا گیا، 26 اپریل کو مزید دو ججز کی بطور الیکشن ٹریبونلز تشکیل دیئے گئے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ سمجھ نہیں آیا الیکشن کمیشن نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے بات کیوں نہیں کی؟ آئین میں کہیں بھی نہیں لکھا کہ کسی جج سے ملاقات نہیں کر سکتے، ملاقات کرنے میں انا کی کیا بات ہے؟ دونوں ہی آئینی ادارے ہیں، الیکشن کمیشن متنازع ہی کیوں ہوتا ہے؟ آپ لوگ الیکشن کرانے میں ناکام رہے۔
اسی کے ساتھ قائم مقام صدر یوسف رضا گیلانی کی جانب سے جاری کئے گئے صدارتی آرڈیننس پر چیف جسٹس نے سوالات اٹھا دیئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آرڈیننس سے کام چلانا ہے تو پارلیمان کو بند کر دیں، آرڈیننس لانا پارلیمان کی توہین ہے، آئین بالکل واضح ہے الیکشن ٹریبونلز کا اختیار الیکشن کمیشن کو حاصل ہے، آرٹیکل 219 سیکشن سی نے بالکل واضح کر دیا ہے، ہم نے آئین و قانون کے تحت حلف اٹھا رکھا ہے، عدالتی فیصلوں پر حلف نہیں لیا، سپریم کورٹ نے جب جب آئینی تشریح کیں، پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ میں نے قانون نہیں بنایا، جنرل بات سے زیادہ نہیں کر سکتا، آرڈیننس کا دفاع نہیں کر رہا۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ٹریبونلز تشکیل سے متعلق صدارتی آرڈیننس پر ریمارکس دیئے کہ ریٹائرڈ ججز کا قانون کب بنایا گیا؟ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے تبدیلی کیسے کی جاسکتی ہے؟ ایک طرف پارلیمان نے قانون بنایا ہے، پارلیمان کے قانون کے بعد آرڈیننس کیسے لایا جا سکتا ہے؟ آرڈیننس لانے کی کیا وجہ تھی؟ کیا ایمرجنسی تھی ؟ الیکشن ایکٹ تو پارلیمان کی خواہش تھی، یہ آرڈیننس کس کی خواہش تھی؟
وکیل نے بتایا کہ آرڈیننس کابینہ اور وزیر اعظم کی خواہش تھی جس پر جسٹس قاضی فائز نے استفسار کیا کہ پارلیمان کی وقعت زیادہ ہے یا کابینہ کی؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پارلیمان کی وقعت زیادہ ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس آرڈیننس کے ذریعے ہائی کورٹ کے فیصلے کی نفی کی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا آپ کو ہائی کورٹ کے کچھ ججز پر تحفظات ہیں؟ لاہور ہائی کورٹ کے حوالے سے ایسے ریمارکس کو ہم تسلیم نہیں کریں گے، پارلیمان کے قانون کے بعد آرڈیننس کدھر سے آگیا؟ کوئی ایمرجنسی ہوتی تو سمجھ میں آتا ہے، یہ بھی تو الیکشن میں مداخلت ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سلمان اکرم راجا سے استفسار کیا کہ کیا آرڈیننس کو چیلنج نہیں کیا؟
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ آرڈیننس کو لاہور، اسلام آباد ہائی کورٹس میں چیلنج کیا ہے، جسٹس قاضی فائز نے ریمارکس دیئے کہ مختلف ہائی کورٹس کیوں؟ آرڈیننس تو پورے ملک میں لگے گا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے الیکشن ٹریبونلز کی تشکیل کا لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی الیکشن کمیشن کی استدعا مسترد کر دی اور لارجر بینچ کی تشکیل کے لئے معاملہ 3 رکنی کمیٹی کو بھجوا دیا۔
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.