پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل، لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے اور اس کی اولین ترجیح امن ہے، نہ کہ جارحیت۔
انہوں نے یہ بات روسی نشریاتی ادارے آر ٹی عربی کو دیے گئے انٹرویو میں کہی، جسے پی ٹی وی نیوز نے نشر کیا۔ ان کا کہنا تھا، “ہم پرتشدد قوم نہیں ہیں، ہم ایک سنجیدہ قوم ہیں۔ ہماری پہلی ترجیح امن ہے۔”
یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے ایک حملے کا الزام بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر لگا دیا۔ پاکستان نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ معاملے کی غیرجانبدار بین الاقوامی تحقیقات ہونی چاہییں — جس کی بھارت نے مخالفت کی۔
صورتحال اس حد تک بگڑ گئی کہ دونوں ایٹمی طاقتیں جنگ کے دہانے پر پہنچ گئیں، مگر امریکا کی مداخلت کے بعد دونوں ممالک ایک سیز فائر پر متفق ہوئے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کے مطابق، بھارتی وزارت دفاع کے ترجمان نے خود سیز فائر کی درخواست کی۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ یہ درخواست براہِ راست پاکستان کو کی گئی یا امریکا کے ذریعے۔
انہوں نے کہا، “ہم امن اور استحکام چاہتے ہیں، اس لیے ہم نے سیز فائر کی پیشکش قبول کی۔”
ڈی جی آئی ایس پی آر نے پاکستانی سفارتی عملے کی کاوشوں کو سراہا اور کہا کہ انہوں نے بین الاقوامی برادری سے انتہائی حکمت اور مؤثر انداز میں رابطہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب بھارت نے پنجاب اور آزاد کشمیر میں ہوائی حملے کیے، جن میں 30 سے زائد عام شہری جاں بحق ہوئے۔ پاکستان نے جواب میں پانچ بھارتی لڑاکا طیارے مار گرائے اور درجنوں ڈرونز کو تباہ کیا۔
اس کے بعد 9 مئی کو بھارت نے پاکستانی فوجی تنصیبات پر حملہ کیا، جس کے جواب میں پاکستان نے “آپریشن بنیان مرصوص” کے تحت بھارتی فوجی اہداف کو نشانہ بنایا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا، “قوم اور افواجِ پاکستان ایک سیسہ پلائی دیوار کی مانند متحد ہو گئیں۔”
انہوں نے بتایا کہ 9 اور 10 مئی کی رات بھارت نے مزید میزائل حملے کیے تاکہ پاکستان کو خوفزدہ کیا جا سکے، مگر “بھارت یہ بھول گیا کہ پاکستانی قوم اور افواج نہ جھکتی ہیں اور نہ ہی جھکائی جا سکتی ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے صرف بھارتی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا اور کسی بھی شہری ہدف کو نقصان نہیں پہنچایا۔ “ہمارا جواب مکمل طور پر ذمہ دارانہ، جائز اور متوازن تھا۔”
پہلگام حملے سے متعلق بھارتی الزامات پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت نے ثبوت پیش کیے بغیر پاکستان پر الزام عائد کر دیا، جبکہ دو دن بعد خود بھارتی وزارت خارجہ نے تسلیم کیا کہ تفتیش ابھی جاری ہے۔
“ثبوت کے بغیر الزام لگانے کی دانائی کہاں ہے؟” انہوں نے سوال اٹھایا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے واضح مؤقف اختیار کیا کہ اگر بھارت کے پاس کوئی ثبوت ہے تو وہ کسی غیرجانبدار ادارے کو دیا جائے، اور پاکستان مکمل تعاون کے لیے تیار ہے۔ لیکن بھارت نے اس منطقی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کی مساجد اور عام شہریوں کو نشانہ بنایا، جن میں بچے، خواتین اور بزرگ شہید ہوئے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج پر فرض ہے کہ وہ ملک کی خودمختاری اور سرحدوں کی حفاظت کریں — اور یہ ذمہ داری ہر قیمت پر ادا کی جائے گی۔
آخر میں انہوں نے زور دیا کہ بھارت خود اس خطے میں دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے، خاص طور پر پاکستان میں۔ انہوں نے واضح کیا کہ “چاہے بات خوارج کی ہو یا بلوچستان میں سرگرم دہشت گرد گروہوں کی — بھارت ہی اصل سہولت کار ہے۔”
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ ماہ پنجاب کے ضلع جہلم سے ایک دہشت گرد کو گرفتار کیا گیا جو مبینہ طور پر بھارت سے تربیت یافتہ تھا۔