Premium Content

Add

ایک خط جو پوسٹ ہونے سے رہ گیا   (آخری حصہ)

Print Friendly, PDF & Email

مصنف:          محمدنصراللہ

اسی سے کیا شکوہ کرنا،تم نے کون سا اچھی کی۔ ذرا ذرا سی بات پہ ”کہانی ختم“ کہنے کی عادت تھی ناتمھیں۔ کتنی جلدی تھی کہانی ختم کرنے کی۔ تم نے ہر بات ہمیشہ اپنی ہی منوائی۔ذرا ذراسی بات پہ سب کچھ سمیٹنا شروع کر دیتی تھی۔میں تو آج تک کچھ نہیں سمیٹ سکا۔سب کچھ ویسے کا ویسا، وہیں کا وہیں پڑا ہے۔ تم نے جو لالٹین بھیجی تھی، وہیں لٹکی ہے۔ دیوں کی روئیاں اور تیل اب بھی بدلتا ہوں۔ اس سے زیادہ روشنی کی ضرورت نہیں تھی۔ موم بتیاں اسی لیے دراز میں پگھل گئی ہیں۔قلموں کی نوکیں اس قدر نوکیلی نہیں رہیں۔ روشنائیاں استعمال ہوگئیں کہ تمھارے جانے کے بعد مجھے لکھ کر زندہ رہنا پڑا۔ دواتوں کے اندر جو دھاگے تم نے اس لیے ڈال کر بھیجے تھے کہ وہ روشنائیوں کو اپنے اندر جذب کرلیں۔ وہ دھاگے خشک ہو گئے ہیں مگر میں نے انھیں ٹوٹ کر بکھرنے نہیں دیا۔ عشق کے چالیس چراغوں میں سے ایک بھی ڈھلنے نہیں دیا؛مگر تم سب کچھ کتنی جلدی ختم کر گئی۔ قسم قسم کی روشنیاں بانٹ کر خود تاریکی میں اتر گئی۔تم نے زیادتی کی۔ کم از کم اپنا سامان تو ساتھ لے جاتی۔وہ مجھ سے نہیں دیکھا جاتا۔ کانسی و پیتل کی نقش و نگار والی قدیم صراحیوں اور پرانے زنگ آلود تالوں کی تلاش تھی نا تمھیں؟ دونوں چیزیں مل گئی ہیں۔ وہ کتابیں بھی جو تمھیں کہیں سے نہیں مل پائی تھیں۔بتاؤ کس کے ہاتھ اور کیسے بھیجوں اب؟ موت کی ریل تونہ جانے کب آئے گی۔آئے گی بھی تو یہ سب کچھ کہاں لاد پائے گی۔کون لادنے دے گا یہ سب کچھ اسے؟ جانتی ہو نا چیزیں مر کر بھی زندہ رہ جاتی ہیں؟ اور ان کے مالکین مر جائیں تو بس مر ہی جاتے ہیں۔پلٹ کر نہیں آتے کہ کوئی انھیں روبرو بٹھا کے، بنا چھوئے ہی سہی، دیکھ ہی لے۔کاغذی تصویروں ہی کو دیکھتے چلے جانا،زندوں کو آخر کتنی دیر تک زندہ رکھ سکتا ہے؟

Read More: https://republicpolicy.com/ek-khat-jo-post-hony-sy-reh-gia/

 ایک روز تمھارے گھر کے آگے سے گزر رہا تھا؛مگر گزر نہیں سکا۔ وہیں رک گیا۔ نہ جانے کیسے اندر چلا گیا۔تمھارے کمرے کی طرف بھی۔ دروازے کو کنڈی لگی ہوئی تھی۔باہر سے۔تب خیال آیاکتنے خوش بخت در ہوتے ہیں وہ جن پر دستک دی جاتی ہے۔جسے سننے والا کوئی ہوتا ہے۔ تمھیں تو دستک سے پہلے کی آہٹ بھی پسند تھی ناکہ تم عمر بھر اس آہٹ، اس دستک کی منتظر رہی،جو کبھی ہوئی ہی نہیں۔ہر آہٹ ہی تمھیں اس کی آہٹ لگتی تھی جس نے کبھی دستک نہیں دی؛ شاید اس لیے کہ تم ہمیشہ اندر سے کنڈی لگا کے رکھتی تھی۔سارے روشن دان، ساری کھڑکیاں بند کرکے کہ اندر کوئی آواز نہ جا سکے۔کاش تم نے ایسا نہ کیا ہوتا،کسی آواز کو تو اندر جانے دیا ہوتا۔کون اتنا بند کر کے رکھتا ہے اپنے کمرے کو۔وہ ایک بار نہیں، کئی بار پہلے بھی آیا تھامگراندر سے بند دروازہ دیکھ کے دستک دیتے ہوئے جھجھک گیا۔آج کنڈی باہر سے لگی تھی اس لیے کھولنے کی ہمت کرگیا۔

اندر داخل ہوا تو اندر تم نہیں تھی۔سیلن تھی، گھٹن تھی۔کھڑکیاں اب بھی بند تھیں۔ کمرے سے عجب باس آرہی تھی۔ میں نے کھڑکیاں بند ہی رہنے دیں کہ یہ تمھارا کمرہ تھا۔ بتی جلائی تو مہرون رنگ کا قالین گرد آلود نظر آیا۔ ننگے پیروں کے نشان واضح نظر آرہے تھے۔ چھتری سے لٹکا پنکھا اخبار میں لپٹا ہوا تھا۔چھت پر جالے بن گئے تھے۔ دیواروں سے لگی کتابوں کی الماریوں کے کونوں میں مکڑیاں مدھم روشنی میں بھی نظر آرہی تھیں۔بلب میز پرجھکاہوا تھا۔روشنی پورے کمرے میں پھیلنے کے بجائے میز پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھی۔ میز پہ جھکا تو اس بیاضپہ نظرپڑی، جسے لکھنے کے لیے تم نے غیر زبان سیکھی تھی۔ مجھ سے گستاخی کیے بنا رہا نہیں گیا۔ صفحے پلٹنے لگا کہ شاید کچھ اپنی زبان میں لکھا ہوا بھی مل جائے۔اپنی زبان میں تو دور کی بات، پرائی میں بھی چند صفحے ہی لکھے ہوئے تھے۔ایک صفحہ پلٹتے ہوئے شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی نیچے گر گئی۔ میں نے سینے سے لگاکے واپس رکھ دی۔مزید ورق پلٹے تو مورپنکھ نظر آئے۔ موتیے کی کلیاں بھی، جو خشک ہوئی پڑی تھیں، پران کی خوشبو زندہ تھی۔ ایک بھی لفظ کا مطلب سمجھے بغیر تمھاری بیاض بند کردی؛مگر تجسس بہت بڑھ گیا۔تمھیں یہ بہت پسند تھا نا؟مگر آج تو میں تمھارے کمرے کے اندر داخل ہو گیاتھا جہاں تمھارے نمک کے نم زدہ لیمپ سے بھی ملاقات ہوگئی۔اسی کے ساتھ ایک اور ڈائری کھلی پڑی تھی۔شاید کھلی رہ گئی تھی۔میں نے اس کا بھی ایک ایک ورق دیکھا۔ساری خالی تھی۔اسی میز پر بند تالا،جس کی چابی ساتھ نہیں تھی، گوند، ٹرانسپیرنٹ ٹیپ، اسٹیپ لر، پنیں،پونیاں، سوئی دھاگا، لفافہ، ٹکٹیں، کلپ بورڈ، راکھ دان میں ادھ بجھے سگریٹ، بانس کے قلم دان میں رنگا رنگ قلمیں، چند مردہ کیک ٹس، گیندے اور چنبیلی کے خشک گجرے، جگہ جگہ سے ادھڑا ہوا لمبی اسڑیپ والاچمڑے کا بیگ،اس پرسن گلاسز، پرانی گھڑیاں، ہاتھ سے بنا ہوا دستی پنکھا، جیولری بکس میں زیورات کے بجائے سیپیاں، مرجان کے رنگا رنگ موتی اور تتلیوں کے پنکھ تھے جن کے رنگ جیولری بکس کے اندرونی مخملی سفید کپڑے پر بکھرے پڑے تھے۔ میز کی پہلی دراز کھول کر دیکھی تو خالی تھی، اس سے نیچے والی دیکھی تو اس میں ایک فوٹو فریم اوندھا پڑا تھا۔ سیدھاکر کے دیکھا تو وہ بھی خالی تھا۔۔۔تم نے مجھے مجھ سے چھپایا۔میں نے تمھیں تم سے۔ کیوں؟ تم نے مجھے بھی اپنا بھرم توڑنے کی اجازت نہیں دی۔ گزارش کرنے کی ذرا سی مہلت بھی نہیں۔یہ سب دیکھنے کے بعد سامنے پڑے اس لفافے کو کیسے چھو پاتاجومیرے لیے تھا مگر خالی تھا۔جس پہ میرا اتا پتا تو دور کی بات نام تک نہیں لکھا تھا۔۔۔کیا تمھاری یہی آرزو تھی کہ تمھارے نام لکھا گیا خط بھی تمھیں کبھی پوسٹ نہ ہو سکے؟

Read More: https://republicpolicy.com/ek-khat-jo-post-hony-sy-reh-gia-2/

 مزیدہمت نہیں تھی اب کتابوں کی طرف رخ کرنے کی، نہ دیواروں پہ سجے لینڈ اسکیپ اور تجریدی آرٹ کے نمونوں کی کلوز ریڈنگ کرنے کی۔ میں باہر نکل آیا۔ صرف اپنے آپ کے ساتھ نہیں ٹھہر سکتا تھا اب وہاں۔ نہ جانے تم اتنی دیر کیسے ٹھہری رہی۔ دیر تک آگ جلا کر بیٹھنے  اورچیزوں سے بھرے اس خالی کمرے نے کیا دیا تمھیں؟ صرف چیزوں کے ساتھ زندگی بسر ہوتی ہے کیا؟ہوتی تو پھر۔۔۔تمھاری ننھی بھتیجی میرے پیچھے پیچھے کمرے میں چلی آئی تھی۔ تمھاری نیل پالش باہر اٹھا لائی۔میں نے شیشی کو چھوا، ڈھکنا کھولا تو خشک ہوئی پڑی تھی۔ سونگھا تو اس خوشبو میں بھی تمھارا احساس باقی تھا۔

 تمھیں تمھارے کمرے میں چھوڑ کر واپس آگیا ہوں۔سچ بتاؤں تو نہیں آسکا ہوں۔وہیں ہوں جہاں تم چھوڑ کر گئی تھی۔ زندگی چل رہی ہے، مگر رک گئی ہے۔ہرنئی بات کی کونپل پھول نہیں بن پاتی اب۔ جان جاتی ہے خوشبو تم تک نہیں پہنچ پائے گی۔ راستے میں بکھر جائے گی۔بے منزل بات بے منزل مسافر کی طرح بے ٹھکانہ رہ جائے گی۔اب بات کا جی نہیں چاہتا، کسی کی مہمان بنے، کوئی اس کا میزبان بنے۔ کچھ بھی تو اندر داخل نہیں ہو پاتا۔سب کچھ باہر رہ جاتا ہے۔جو پہلے سے ہے، بس وہی ہے۔ تم سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ دریا اندر رہ جائیں توسمندر ہو جاتے ہیں جن میں انسان نہ ڈوب پاتا ہے نہ تیر پاتا ہے۔بس غوطے کھاتا رہتا ہے ان یادوں کے جو مزید جینے کی امنگ چھین لیتی ہیں۔ زندگی طویل لگنے لگتی ہے۔بھاری وقت کا وزن عام وقت کا ہم وزن نہیں رہتا۔ انسان وقت کی اس سل سے خود کو نکالنے کے لییہاتھ پاؤں مارتا ہے مگر نکل نہیں پاتا۔جو بیت چکا ہوتا ہے اسی کے بھنور میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔ وہ جیسا بھی، نظر آتا رہتا ہے کہ کچھ لوگ نظر آتے رہیں۔۔۔مگر تم۔۔۔تم نے کیا کیا۔۔۔ بہت جلدی کی۔۔۔کچھ پروا نہیں کی کسی کی۔۔۔ کوئی تم سے کیا کہے اب۔۔۔ کہہ سکتا بھی کیاہے۔۔۔ہو سکے تو اب وہاں ضرور ملنا۔۔۔ تم وہاں بھی نہ ملی تو۔۔۔؟ خدا نہ کرے کسی کا مرنا بیکار جائے۔ وہ سب وہاں مل سکیں جن سے یہاں بچھڑ چکے ہیں۔خدا کرے کتابوں میں لکھا ہوا، سچ ہو 

                                                                                  تم سے جلد ملاقات کا آرزومند

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

AD-1