بھارت کے مجوزہ دفاعی منصوبے کے باضابطہ اعلان کے لیے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ کا واشنگٹن کا اہم دورہ طے تھا، جو سفارتی اور عسکری حلقوں میں خاصی اہمیت رکھتا تھا۔ اس دورے کے دوران امریکا کے ساتھ ایک بڑے دفاعی معاہدے کو حتمی شکل دیے جانے کی توقع تھی، تاہم یہ دورہ اچانک منسوخ کر دیا گیا، جس کے پیچھے بنیادی وجہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی ٹیرف سے متعلق جاری مذاکرات بتائی جا رہی ہے۔
بھارتی حکام کے مطابق، نئی دہلی اور واشنگٹن کے درمیان حالیہ دنوں میں ٹیرف پر اختلافات کے باعث تجارتی تعلقات میں تناؤ پیدا ہوا ہے۔ بھارتی قیادت کا اندازہ تھا کہ جب تک اس معاملے پر کوئی واضح اور حتمی پیش رفت نہیں ہو جاتی، اس وقت تک دفاعی معاہدے پر دستخط مؤثر انداز میں ممکن نہیں ہوں گے۔ اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ پہلے ٹیرف پر اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے، اور اس کے بعد دفاعی تعاون کو مزید آگے بڑھایا جائے۔ حکام کا کہنا ہے کہ پسِ پردہ رابطے اور ابتدائی سطح کی بات چیت اس حوالے سے جاری ہیں، لیکن ابھی فریقین کسی مشترکہ نتیجے تک نہیں پہنچے۔
مجوزہ دفاعی معاہدہ، جس کی مالیت تین ارب ساٹھ کروڑ امریکی ڈالر ہے، بھارتی بحریہ کے لیے چھ جدید پی-81 جاسوس طیاروں اور ان کے ہمہ جہت سپورٹ سسٹمز کی خریداری پر مشتمل ہے۔ یہ طیارے سمندری نگرانی، آبدوزوں کی تلاش اور ساحلی دفاع میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور بھارتی بحریہ کی آپریشنل صلاحیتوں میں نمایاں اضافہ کر سکتے ہیں۔ دفاعی ماہرین کے مطابق، یہ معاہدہ نہ صرف عسکری اعتبار سے بلکہ خطے میں طاقت کے توازن کے لیے بھی اہمیت کا حامل ہے، خاص طور پر اس وقت جب بحرِ ہند میں اسٹریٹجک مقابلہ بڑھ رہا ہے۔
بھارتی حکومت کا مؤقف ہے کہ موجودہ عالمی حالات میں امریکا اور اس کے یورپی اتحادی اپنے تجارتی اور معاشی مفادات کے لیے روس کے ساتھ کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن اقتصادی اور سیاسی دباؤ کا نشانہ صرف بھارت کو بنایا جا رہا ہے۔ نئی دہلی کا کہنا ہے کہ یہ رویہ غیر منصفانہ ہے اور اس سے نہ صرف بھارت کے اقتصادی مفادات متاثر ہو رہے ہیں بلکہ دو طرفہ تعلقات پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔