Premium Content

کھانسی کے زہریلے شربت

Print Friendly, PDF & Email

بدقسمتی سے پاکستان کا صحت کا شعبہ ایک بار پھر توجہ کا مرکز بنا ہواہے۔ ڈبلیو ایچ او کے الرٹ کے بعد پنجاب حکومت نے کھانسی کے پانچ سیرپ پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ان سیرپ میں خطرناک حد تک الکحل کی سطح اور ممکنہ طور پر زہریلے مادے پائے گئے۔ مالدیپ کی شکایات کی وجہ سے پیدا ہونے والی یہ خطرناک صورتحال ایک شرمناک بین الاقوامی جہت کی نشاندہی کرتی ہے: یہ خطرناک مصنوعات نہ صرف مقامی طور پر فروخت کی جاتی تھیں بلکہ برآمد بھی کی جاتی تھیں۔

یہ حالیہ ہفتوں میں پنجاب میں سامنے آنے والا ادویات سے متعلق دوسرامسئلہ ہے۔ اس سے کچھ ہفتوں قبل ذیابیطس سے متعلق آنکھوں کے علاج کے لیے کینسر کی دوا کے آف لیبل استعمال کے بعد مریضوں کی بینائی ختم ہوگئی تھی۔ کینسر کی اس دوا کے بارے میں بین الاقوامی مینوفیکچرر نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ یہ دوا “آنکھ میں کسی بھی استعمال کے لیے منظور نہیں ہے”۔ دوائیوں کا غلط استعمال،پاکستان میں خطرناک حد تک عام ہے۔ یہ واقعات  الگ تھلگ واقعات نہیں ہیں بلکہ پاکستان کے ڈرگ ریگولیٹری فریم ورک میں نظامی ناکامی کی علامات ہیں۔ یہ واقعات مینوفیکچرنگ سے لے کر تقسیم تک نگرانی میں نمایاں خامیوں کو اجاگر کر رہے ہیں، اور صنعت کے اندر استعمال کیے جانے والے غیر رسمی، اکثر غیر محفوظ، نقل و حمل کے طریقوں کو بے نقاب کررہے ہیں ہیں۔ جاری طبی خرابی، جیسا کہ 2021 میں لاہور میں دل کے مریضوں پر معیاد ختم ہونے والے سٹنٹ کا استعمال کیا گیا، ہمارے ہیلتھ کیئر سسٹم کی خوفناک حالت کو مزید واضح کرتا ہے۔

Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.

صحت عامہ کی یہ مسلسل ناکامیاں میڈیسن کے ضابطے میں جامع اصلاحات کی اشد ضرورت کو اجاگر کرتی ہیں۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کو سخت کنٹرول کو نافذ کرنا چاہیے اور ادویات کی تیاری اور تقسیم کے عمل میں شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنانا چاہیے۔ اس میں میڈیکل پریکٹیشنرز اور مریضوں کی رہنمائی کے لیے ایک قابل اعتماد اور مستند قومی فارمولری کا قیام شامل ہے، اس طرح دواؤں کے غلط استعمال کو روکنا ہے۔

ادویات کے سرکاری رہنما کی عدم موجودگی ایک واضح خلا ہے جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ فارما انڈسٹری کو کنٹرول کرنے والے ریگولیٹری میکانزم کو تبدیل کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ اس میں نہ صرف مینوفیکچرنگ کے معیارات پر سخت جانچ پڑتال شامل ہونی چاہیے بلکہ اس بات کا بھی ایک جامع جائزہ لینا چاہیے کہ کس طرح منشیات کی مارکیٹنگ کی جاتی ہے، ان کو تجویز کیا جاتا ہے اور تقسیم کیا جاتا ہے۔ عوام کی صحت اور حفاظت اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی غفلت یا کوتاہی کے سخت قانونی نتائج برآمد ہونے چاہئیں۔ فیصلہ کن کارروائی اور نظامی اصلاحات کے ذریعے ہی ہم ایسے واقعات کو دوبارہ ہونے سے روک سکتے ہیں اور اپنے شہریوں کی صحت کی حفاظت کر سکتے ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos