ہم کنواروں قسمت کے ماروں کی جوتا چھپائی تو کبھی خواب میں بھی نہیں ہوئی البتہ جوتا چورائی متعدد بار مختلف مساجد میں ہوچکی ہے۔ خیر ہم کبھی زیادہ قیمتی جوتا پہن کر مسجد گئے ہی نہیں،
یہاں بات سستے یا مہنگے جوتے کی نہیں اور نہ ہی میرے یا کسی بھی فرد کا انفرادی مسئلہ ہے بلکہ یہ مسئلہ عالمی سطح پر درپیش ہے۔ اسے کسی خاص مذہب سے بھی نہیں جوڑ سکتے کہ مساجد میں ہی یہ واقعات پیش آتے ہیں۔ مندر، مسجد،گردوارہ اور ایسے اجتماع جہاں آپکو جوتا اتارنے کی ضرورت پیش آتی ہے وہاں ایسے واقعات درپیش آتے رہتے ہیں۔ ہاں ہمارے ساتھ یہ حادثہ زیادہ تر مسجد میں ہی پیش آیا ہے۔
اس ساری صورت حال کو جب انسان دیکھتا ہے تو لامحالہ ایک سوال دماغ کے گوشوں سے انگڑائی لیتا ہے، مجھے قوی امید ہے کہ عوامی حلقوں میں بھی ایسے واقعات کے بعد اس قسم کے سوالات کی گونج ہوگی کہ ان لوگوں کو خدا کا خوف بھی نہیں آتا کہ وہ اللہ کے گھر سے چوری کرتے ہیں؟ یعنی چوری کی وجہ صرف خدا کے خوف کے نہ ہونے کو قرار دیا جاتا ہے۔
یہ ایک بنیادی سوال ہے، اور یقیناً اگر ہمیں سردی کے موسم میں گرم بستر مہیا ہو، ہمارے بچوں کو موسم کے لحاظ سے تمام سہولیات میسر ہوں، تین یا کم از کم دو وقت کا کھانا بڑی آسانی سے مل رہا ہے، ہمارے بچوں کےلیے روزمرہ کی ضروریات پوری ہورہی ہوں، ہمارے چولہے گرم ہوں، ہماری رہائش اچھی ہو، ہمیں کل کی فکر نہ ہو کہ آنے والے کل کا کہاں سے، کیسے بندوبست ہوگا؟ تو ہم بیٹھ کر آرام سے دیگر مقامات کے علاوہ خاص کر مساجد میں چوری کی وارداتوں سے متعلق یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا کا خوف ختم ہوگیا ہے۔
لیکن اس سے پہلے کہ ہم بات کو اس کی آخری حد یعنی خوف خدا کی کمی سے شروع کریں، ایک لمحہ رکیے، اور سوچے کہ ایک شخص اگر اس انتہائی قدم تک گیا ہے تو آخر کس وجہ سے گیا ہوگا؟ کیا واقعی وہ اس قدر بے خوف اور جرّی ہوگیا ہے کہ اس کا دل مہر زدہ ہوگیا ہے، اس سے خدا کا خوف نکل گیا، اور وہ مساجد کی اشیا چوری کر رہا ہے یا معاملہ کوئی اور ہے؟
چوری کرنا یقیناً ایک جرم ہے۔ چوری کی مخصوص حد جس کی سزا ہاتھ کاٹنا تھی، ملکی صورت حال کے پیش نظر اس کی سزا کیا ہوگی، یہ علمائے وقت ہی فیصلہ کرسکتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں جب قحط آیا تھا تو یہ سزا منسوخ کردی گئی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ شاید یہی تھی کہ سزائیں تب لاگو ہوتی ہیں جب رعایا کی تمام بنیادی ضروریات پوری ہورہی ہوں، اور پھر کوئی فساد کےلیے کرنا شروع کردے۔ لیکن اگر بنیادی ضروریات ہی تعطل کا شکار ہوجائیں، اور پھر خاص کر اگر عوام بھی ایسے ہوں جن کا کوئی پرسان حال نہ ہو، ان کے حکمرانوں کو ان کی فکر نہ ہو تو شاید وہاں سزائیں کیا، اخلاقی قواعد و ضوابط بھی منسوخ ہوجاتے ہیں۔ پھر یہ پروا نہیں ہوتی کہ گھر خدا کا ہے یا اس کے بندے کا۔ وہاں صرف ایک فکر کارفرما ہوتی ہے کہ وہ کس طرح ان حالات کا سامنا کرسکتا ہے۔ وہ اپنے بیوی بچوں کےلیے ایک وقت کی روٹی کہاں سے لائے گا اور جب کوئی راستہ نہیں ملتا، کوئی چارہ نہیں ہوتا، کوئی سہارا نہیں رہتا تو انسان شاید کانپتے ہاتھوں، بہتی آنکھوں سے کوئی انتہائی قدم اٹھا بیٹھتا ہے۔
اس لیے ہمیں سوچنا ہوگا کہ بات صرف خوف خدا کی کمی نہیں، بلکہ مخلوق کی بے چارگی بھی ہوسکتی ہے، جس سے اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔
ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم جوتا چورانے والے کو تو عبرت کا نشان بناتے ہیں مگر اربوں کی کرپشن کرنے والوں کے جوتے سیدھے کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اصل مجرموں کے گریبان کو پکڑیں جن کی بدولت ایک عام آدمی اس انتہائی اقدام تک پہنچتا ہے اور خدا کے گھر میں خدا بننے کی بجائے انسان ہی رہتے ہوئےجوتے جیسی معمولی دنیاوی چیز کیلئے کسی غریب کی درگت بنانے کی بجائے درگزر کردینا چاہیے۔