پاکستان کا قرضوں کا بحران اور نجات کا راستہ

[post-views]
[post-views]

ظفراقبال

وزیراعظم شہباز شریف کا یہ انتباہ کہ پاکستان مزید قرضوں پر انحصار کرتے ہوئے زندہ نہیں رہ سکتا، ایک تلخ مگر ناقابلِ انکار حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے جسے ماضی کی حکومتوں نے مسلسل نظرانداز کیا۔ ریاض میں منعقد ہونے والی نویں “مستقبل سرمایہ کاری کانفرنس” — جس کا عنوان تھا کیا انسانیت صحیح سمت میں جا رہی ہے؟ — میں اپنے خطاب کے دوران انہوں نے واضح طور پر تسلیم کیا کہ مسلسل قرض گیری نے پاکستان کی معاشی بنیادوں کو کمزور کر دیا ہے۔ ان کا بیان محض سیاسی اظہار نہیں بلکہ ایک قومی اعترافِ جرم کے مترادف ہے کہ ملک قرضوں کے ایسے جال میں پھنس چکا ہے جس سے نکلنے کے لیے بنیادی معاشی اصلاحات ناگزیر ہیں۔

ویب سائٹ

معاشی اصولوں کے مطابق، قرض لینا بذاتِ خود کوئی منفی عمل نہیں ہوتا۔ دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک دونوں ہی ترقی، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، اور سماجی بہبود کے منصوبوں کے لیے قرض حاصل کرتے ہیں۔ تاہم، فرق اس بات سے پیدا ہوتا ہے کہ قرض کو کہاں اور کیسے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر قرض سے سڑکیں، توانائی کے منصوبے، صحت و تعلیم کے ادارے یا پیداواری شعبے بہتر کیے جائیں تو یہ قرض مستقبل کی آمدنی بڑھا کر خود اپنی واپسی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ مگر جب قرض صرف بجٹ خسارہ پورا کرنے یا پرانے قرضوں کی ادائیگی کے لیے لیا جائے تو یہ معیشت کو خود ساختہ بحران میں دھکیل دیتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں قرضوں کا بیشتر استعمال اسی غیر پیداواری سمت میں ہوا ہے۔

یوٹیوب

پاکستان کی عالمی مالیاتی ساکھ بھی اس بحران کو مزید گہرا کر رہی ہے۔ بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیاں جیسے موڈیز، فچ، اور اسٹینڈرڈ اینڈ پوئرز کسی ملک کی قرض ادائیگی کی صلاحیت اور ادارہ جاتی اعتبار کی بنیاد پر اس کی کریڈٹ درجہ بندی طے کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، یونان کا قرض سے جی ڈی پی تناسب 2020 میں 250 فیصد تھا، لیکن یورپی یونین کے مضبوط ادارہ جاتی اعتماد اور مالیاتی ڈھانچے کی وجہ سے اسے فنڈز دستیاب رہے۔ پاکستان کا قرض سے جی ڈی پی تناسب تقریباً 87 فیصد ہے، مگر عالمی اعتماد کی کمی کے باعث اسے کم قرض کے لیے زیادہ قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔

ٹوئٹر

اندرونِ ملک بھی صورتحال تشویشناک ہے۔ حکومت مسلسل بینکوں سے قرض لے کر اپنے مالیاتی خسارے کو پورا کرتی ہے، اور “پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز” جاری کر کے وقتی سہارا حاصل کرتی ہے۔ یہ وقتی اقدامات نجی شعبے کے لیے قرضوں کی فراہمی کو محدود کرتے ہیں، شرحِ سود میں اضافہ کرتے ہیں، اور مہنگائی کو ہوا دیتے ہیں۔ یوں ہر حکومت زبانی طور پر نجی شعبے کو “ترقی کا انجن” قرار دیتی ہے مگر اپنی پالیسیوں کے ذریعے اسی انجن کا ایندھن ختم کر دیتی ہے۔

فیس بک

اس مسئلے کا حقیقی حل صرف نئے قرض لینے یا شرحِ سود میں ردوبدل سے نہیں بلکہ غیر پیداواری اخراجات میں حقیقی کمی لانے سے وابستہ ہے۔ اگر حکومت اپنے موجودہ اخراجات میں کم از کم دو کھرب روپے کی کمی کرے تو مالیاتی خسارہ نمایاں حد تک کم ہو سکتا ہے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، ایسی اصلاحات سیاسی جرات اور انتظامی شفافیت کے بغیر ممکن نہیں — اور یہی وہ دو عوامل ہیں جو پاکستان کی مالیاتی پالیسی میں ہمیشہ کمزور رہے ہیں۔

بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا انحصار دوست ممالک جیسے چین، سعودی عرب، اور متحدہ عرب امارات پر قرضی امداد کے لیے اس کی کمزوری کو مزید نمایاں کرتا ہے۔ اگرچہ یہ ممالک ماضی میں قرضوں کی ادائیگی مؤخر کرتے رہے ہیں، مگر اب ان کے اعتماد میں کمی آ رہی ہے۔ موجودہ جغرافیائی و سیاسی حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ پاکستان روایتی سفارت کاری سے آگے بڑھ کر منظم اقتصادی شراکت داری کی سمت بڑھے۔ اب یہ ممالک اپنی مالی امداد کو پاکستان کے آئی ایم ایف پروگرام سے مشروط کر رہے ہیں، جو اسلام آباد کی مالیاتی ساکھ پر بڑھتے ہوئے عدم اعتماد کی علامت ہے۔

ٹک ٹاک

فی الحال پاکستان کی معاشی حکمتِ عملی محض وقتی ردِعمل تک محدود ہے — آئی ایم ایف کی منظوری کے انتظار یا قرضوں کے وقتی رول اوور کے ذریعے نادہندگی سے بچنے تک۔ یہ سوچ اب ختم ہونی چاہیے۔ حکومت کو فعال سفارت کاری اور اندرونی اصلاحات کے ساتھ قرض دہندگان کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے 2023 میں آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر سے ملاقات کر کے ایک بند پروگرام کو دوبارہ فعال کرنے کی کوشش کی تھی، مگر صرف مذاکرات کافی نہیں۔ پاکستان کو عملی اقدامات دکھانے ہوں گے — فضول اخراجات میں کمی، ٹیکس نیٹ کی توسیع، اور مالیاتی نظم و نسق میں شفافیت۔ صرف آئی ایم ایف کے ڈھانچے پر تنقید کافی نہیں، بلکہ ایک جامع، مقامی “معاشی بحالی منصوبہ” پیش کرنا ہوگا۔

انسٹاگرام

دنیا کے دیگر قرض زدہ ممالک سے سبق یہ ہے کہ مسئلہ قرض نہیں بلکہ قرض کا غلط استعمال ہے۔ نتیجہ خیز قرض ترقی لاتا ہے، جب کہ غیر پیداواری قرض تباہی۔ پاکستان کو “بقا کے لیے قرض” سے “ترقی کے لیے قرض” کے مرحلے تک پہنچنا ہوگا، جس کے لیے ادارہ جاتی احتساب، شفاف مالی نظم، اور پیداواری منصوبوں کی ترجیح ضروری ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف کے الفاظ بحران کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں، لیکن اصل امتحان عمل کا ہے۔ پاکستان کو قرضوں سے آزادی مانگنی نہیں، اپنی ساکھ کے ذریعے کمانی ہے۔ حقیقی مالی اصلاحات — نہ کہ زبانی بیانات — ہی طے کریں گی کہ پاکستان قرضوں کے جال سے نکلتا ہے یا ہمیشہ اس میں مقید رہتا ہے۔

ویب سائٹ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos