محمد زبیر
کبھی انسان کو ہومو سی-پی-ینز (یعنی باشعور مخلوق) کہا جاتا تھا۔ یہ وہی مخلوق ہے جس نے چاند پر قدم رکھا، ایجادات کیں، تہذیبیں بنائیں اور علم کی روشنی پھیلائی۔ لیکن آج کا انسان… اب اسے شاید ہومو ایڈیوسائیٹس کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ یعنی وہ “غفلت زدہ” مخلوق جو اپنی ہی حماقت پر نازاں ہے۔
ذرا نظر دوڑائیے، ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جہاں سمارٹ فون تو ہر جیب میں ہے مگر عقل… وہ یا تو ڈیٹا ختم ہونے کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے یا کسی نئے وائرل میم کی قربانی بن جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی پہلے سے زیادہ “بیوقوف” ہو رہے ہیں؟ بدقسمتی سے، جواب شاید ہاں میں ہے۔ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق، پچھلی چند دہائیوں میں دنیا بھر میں (ذہانت کا معیار) میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ ناروے، برطانیہ اور کئی یورپی ممالک کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ نئی نسل کا اپنے والدین کے مقابلے میں کم ہو چکا ہے اور یہ سب جینیاتی نہیں بلکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔ جی ہاں، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور کی کارستانی!
اب تو حال یہ ہے کہ اگر فون چند لمحے کے لیے بھی نظر سے اوجھل ہو جائے، تو بندہ صرف گمشدہ موبائل ہی نہیں، ساتھ میں اپنی باقی ماندہ عقل بھی تلاش کرتا پھرتا ہے۔
ذرا غور کریں۔، ہم کس مقام پر پہنچ چکے ہیں: برطانیہ میں ہر دس میں سے ایک شخص یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ 10٪ رعایت بہتر ہے یا قیمت میں 30 پاؤنڈ کی کمی۔ یورپ میں لاکھوں لوگ عملی طور پر ناخواندہ ہیں، یعنی اخبار پڑھ کر سمجھنا بھی مشکل۔ امریکہ میں تقریباً ساڑھے چار کروڑ افراد پانچویں جماعت سے نیچے کی سطح پر پڑھتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب دنیا کے طاقتور ترین ملک کے عوام کا حال یہ ہو تو باقی دنیا کس حال میں ہو گی؟ اور ہمیں سچ بتائیے… کیا ہم خود بھی اسی صف میں شامل نہیں ہو چکے؟ خبر کی جگہ افواہ نے لے لی ہے، تحقیق کی جگہ ریئل اور شارٹ ویڈیوز نے، اور مکالمے کی جگہ می مز اور ایموجیز نے۔
ہمیں بتایا گیا تھا کہ ٹیکنالوجی علم عام کرے گی مگر ہوا یہ کہ اب “گوگل کرنا” علم کا معیار بن چکا ہے اور “کاپی پیسٹ” علم کا ذریعہ۔ یاد رکھیے، یہ زوال کوئی حادثہ نہیں۔ یہ ہماری اپنی پسند ہے۔ ہم نے آسانی کو علم پر ترجیح دی، آواز کو دلیل پر، اور شہرت کو سچ پر۔ ہم نے خود کو سیکھنے سے محروم کیا اور خوشی خوشی ہومو ایڈیوٹیکوس کا تاج پہن لیا۔ لیکن ابھی بھی وقت ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نسلیں صرف اسکرین نہ گھوریں بلکہ کتاب بھی پڑھیں، صرف سکرول نہ کریں بلکہ سوچیں بھی تو ہمیں اپنی تعلیمی ترجیحات، میڈیا کی خوراک، اور معاشرتی گفتگو کو ازسرِنو ترتیب دینا ہوگا۔ ورنہ وہ وقت دور نہیں جب عجائب گھروں میں ہماری تصاویر کے نیچے لکھا ہوگا:
“یہ ہیں ایڈیوسائیٹس — وہ انسان، جن کے پاس سب کچھ تھا، مگر عقل نہ بچا سکے!”
ہم جدید دور میں رہتے ہوئے، بظاہر ترقی یافتہ لیکن باطنی طور پر فکری زوال کا شکار ہو چکے ہیں۔ اب ضرورت ہے کہ ہم شعور، تعلیم اور تحقیق کو پھر سے اپنی زندگی کا حصہ بنائیں، ورنہ ہنسی مذاق کے اس دور میں ہم ہنسی کا سامان بن کر رہ جائیں گے۔
ذرا دائیں بائیں نظر دوڑائیے۔ آپ کو ہر طرف معلومات کی بھرمار نظر آئے گی مگر فہم و فراست ناپید۔ ہمارے معاشرے میں بھی سوشل میڈیا، یوٹیوب کے “شارٹز” اور ٹک ٹاک کے گرد گھومتی ایک نئی نسل تیار ہو رہی ہے جسے نہ اپنی تاریخ کا علم ہے نہ تہذیب کا، اور نہ ہی دین کا۔ ہم وہ قوم ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے إقرأ (پڑھ) کا پہلا حکم دیا۔ ہمارا دین علم کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتا مگر آج ہمارے بچے “سکرول” کرتے کرتے سو جاتے ہیں، اور والدین بچوں کو کتابوں کے بجائے ٹیبلٹ تھما کر خود سکون کا سانس لیتے ہیں۔ کبھی پاکستان کے گھروں میں رات کا کھانا دستر خوان پر اکتھے کھایا جاتا تھا، جہاں چھوٹے بڑے کی تمیز سکھائی جاتی، بزرگوں سے قصے سنے جاتے اور نسلوں میں حکمت منتقل ہوتی۔ اب وہی لمحے الگ الگ کمروں میں، موبائل کی روشنی میں تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں۔
ہمارے ہاں تو علم صرف دنیاوی کامیابی کے لیے نہیں، بلکہ نجات اور تزکیہ نفس کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ مگر آج کے اسکولوں اور جامعات میں “تنقیدی سوچ” کے نام پر ایسا مواد پڑھایا جا رہا ہے جو نہ ہماری تہذیبی اقدار سے ہم آہنگ ہے نہ ملکی ثقافت سے۔ ہم نے اپنی تہذیبی شناخت اس انداز میں قربان کی ہے کہ اب اسلامی تاریخ جاننے کے بجائے مغربی افسانوی سپر ہیروز کی بحث ہوتی ہے۔ علامہ اقبال اور قائداعظم کے نظریات نوجوانوں کے لیے اجنبی ہو چکے ہیں۔ اردو زبان کا حسن برباد ہوتا جا رہا ہے، انگریزی اور رومن اردو کا ایسا خلط ملط ہے کہ نہ مزہ انگریزی کا آتا ہے نہ سمجھ اردو کی آتی ہے۔
قرآن مجید بار بار عقل، تدبر، تفکر اور تعقل کی دعوت دیتا ہے، مگر ہم نے عقل کو صرف شارٹ ویڈیوز کی حد تک محدود کر دیا ہے۔ نہ صرف یہ، بلکہ دینی علم، احادیث، اور سیرت النبی ﷺ کو “فارورڈ پیام” بنا کر بھیج کر فرض ادا کر لیا جاتا ہے، جبکہ اس علم پر غور و فکر کا دروازہ بند ہے۔ یہ سب کچھ حادثاتی نہیں بلکہ ہماری اپنی غفلت اور انتخاب کا نتیجہ ہے۔
اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ پاکستان کی نسلِ نو باوقار، مہذب، اور دین و دنیا دونوں کی فہم رکھنے والی ہو تو ہمیں تعلیم کو تجارتی نہیں، تربیتی عمل بنانا ہوگا۔ ہمیں اسکولوں میں اسلامیات صرف رٹا لگانے کا مضمون نہیں بلکہ کردار سازی کا ذریعہ بنانا ہوگا۔ میڈیا کو بے حیائی اور جہالت کی ترویج سے روک کر علم، تہذیب اور اخلاق کے فروغ کا ذریعہ بنانا ہوگا۔ ورنہ وہ وقت زیادہ دور نہیں کہ ہماری “ڈیجیٹل ترقی” ہمیں ایسے گڑھے میں دھکیل دے گی جہاں نہ ایمان کی روشنی ہو گی نہ فہم کا چراغ۔
یاد رکھیے! ہم ہومو ایڈیو سائیٹس بننے کے لیے پیدا نہیں ہوئے بلکہ ہم خیرِ امت ہیں
جس نے اچھائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ فیصلہ ہمیں کرنا ہے۔ ہم کیا بننا چاہتے ہیں؟ ایک موبائل زدہ، جذباتی، جلدباز مخلوق؟ یا ایک سنجیدہ، علم پرور، باکردار قوم۔ بہتر ہے ہم پاکستانی ثقافت اور اسلامی تہذیب کے مطابق اپنی تعلیمی، سماجی اور خاندانی