ارشد محمود اعوان
سن 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے امریکہ، اسرائیل اور مغربی طاقتیں مسلسل ایران کے اسلامی نظام کو گرانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ان کا مقصد ایک ایسی حکومت قائم کرنا ہے جو مغرب کی حامی ہو، اسرائیل کو چیلنج نہ کرے، اور خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ کرے۔ یہ کوشش مختلف ادوار میں مختلف طریقوں سے سامنے آئی ہے—کبھی اقتصادی پابندیاں، کبھی سائبر حملے، کبھی اندرونی بغاوتوں کی پشت پناہی، اور اب براہ راست عسکری کارروائیاں۔ جون 2025 میں ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملے اسی سلسلے کی تازہ کڑی ہیں، جنہیں جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے نام پر جواز دیا گیا، مگر اصل ہدف اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کو کمزور کرنا اور اسے ختم کرنا ہے۔
تاہم، اب تک کی صورت حال یہ بتاتی ہے کہ نہ صرف یہ حکمت عملی ناکام رہی ہے، بلکہ اس کے منفی اثرات خود امریکہ اور اسرائیل پر پڑے ہیں۔ ایران کی حکومت نہ صرف برقرار ہے بلکہ اندرونی طور پر مزید مضبوط ہو چکی ہے۔ مغربی طاقتیں مسلسل اس حقیقت کو نظر انداز کرتی رہی ہیں کہ ایران کا سیاسی نظام محض ایک نظریاتی ڈھانچہ نہیں بلکہ ایک قومی شناخت کا مظہر بھی ہے، جو غیر ملکی مداخلت کے خلاف مزاحمت کے جذبے سے جڑا ہوا ہے۔
اسرائیلی اور امریکی حملوں کا سب سے بڑا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایرانی عوام ایک بار پھر متحد ہو گئے ہیں۔ وہ طبقات جو ماضی میں حکومت پر تنقید کرتے رہے، جیسے اصلاح پسند، لبرل اور نوجوان، اب ریاستی دفاع میں صف آراء ہو چکے ہیں۔ ایرانی معاشرہ خارجی خطرات کے وقت اندرونی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جسے مغرب ہمیشہ نظر انداز کرتا رہا ہے۔ قوم پرستی، مذہبی وابستگی اور تاریخی شعور نے ایرانی عوام کو ایک ایسی قوت عطا کی ہے جو کسی بھی بیرونی دباؤ کا مقابلہ کر سکتی ہے۔
ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے اسرائیل کی کارروائیاں محض دفاعی نہیں بلکہ تزویراتی نوعیت کی ہیں۔ اسرائیل خطے میں واحد جوہری طاقت کے طور پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنا چاہتا ہے۔ ایران کی جوہری صلاحیت نہ صرف اس توازن کو چیلنج کرے گی بلکہ ایک مسلم ریاست کی حیثیت سے اسرائیل کی غیر متنازع حیثیت کو بھی خطرے میں ڈالے گی۔ لیکن ان حملوں کے باوجود ایران کے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر ختم کرنا ممکن نہیں رہا۔ اگر موجودہ حکومت قائم رہتی ہے، جیسا کہ حالات ظاہر کرتے ہیں، تو ایران جلد یا بدیر جوہری صلاحیت حاصل کر لے گا، جس سے مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا توازن مکمل طور پر تبدیل ہو جائے گا۔
امریکہ اور اسرائیل کی پالیسی کی ایک بڑی خامی یہ رہی ہے کہ وہ ایرانی عوام کو محض حکومت کے زاویے سے دیکھتے ہیں۔ وہ اس سچائی کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں کہ ایرانی معاشرہ مذہبی نظریے سے کہیں زیادہ تاریخی شعور، قومی غیرت اور مزاحمتی فکر پر مشتمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پابندیوں، حملوں اور سیاسی دباؤ کے باوجود اسلامی جمہوریہ قائم ہے اور عوام کی حمایت سے مزید مضبوط ہو چکی ہے۔
اگر امریکہ اور اسرائیل ایران میں حکومت کی تبدیلی میں ناکام رہتے ہیں، تو اس کے کئی اہم اثرات سامنے آ سکتے ہیں۔ اول، ایران جوہری طاقت بننے کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔ دوم، ایران روس اور چین کے ساتھ مل کر ایک متبادل عالمی بلاک کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ سوم، خطے میں مزاحمتی تحریکیں مزید فعال ہو جائیں گی، اور چہارم، امریکی اثر و رسوخ خصوصاً عرب دنیا میں مزید کمزور ہو جائے گا۔ یہ تمام پہلو مغرب کے لیے ایکتزویراتی دھچکا ہوں گے، جس کے بعد شاید انہیں اپنی خارجہ پالیسی پر نظرِ ثانی کرنا پڑے۔
ایران صرف ایک حکومت نہیں بلکہ ایک نظریاتی ریاست ہے۔ اسلامی انقلاب کے بعد سے اس نے ایک ایسا بیانیہ تخلیق کیا ہے جو مغربی لبرل ماڈل کے خلاف کھڑا ہوتا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل اس نظریے سے خوف زدہ ہیں، اسی لیے وہ ہر ممکن طریقے سے اسے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ نظریات توپوں اور بموں سے ختم نہیں کیے جا سکتے۔ ان کا مقابلہ فکری اور سیاسی سطح پر ہی ممکن ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران اس وقت محض ایک ریاستی دفاع نہیں بلکہ ایک نظریاتی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ایسی جنگیں صرف عسکری قوت سے نہیں بلکہ اتحاد، قربانی، اور قومی شعور سے جیتی جاتی ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل جب تک اپنی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی نہیں لاتے، اور مزاحمت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، تب تک وہ اسی طرح ناکامی کا شکار رہیں گے۔ ایران کی حکومت میں تبدیلی ممکن ہے، لیکن وہ تبدیلی ایرانی عوام کی مرضی سے اندرونی سطح پر ہی آ سکتی ہے، بیرونی دباؤ سے نہیں۔