اداریہ
ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ جنگی تصادم، جس میں بعد ازاں امریکہ بھی شامل ہوا، ایک کمزور مگر وقتی جنگ بندی پر ختم ہو گیا ہے۔ تاہم یہ جنگ بندی امریکہ اور اسرائیل کی ان توقعات پر پوری نہیں اُتری جو وہ اس کارروائی سے وابستہ کیے بیٹھے تھے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی قیادت کی جانب سے “ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو مکمل طور پر تباہ کرنے” کے دعوے زمینی حقائق سے ہم آہنگ نہیں۔
امریکی دفاعی انٹیلی جنس ایجنسی کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق ایران کے جوہری پروگرام کو صرف چند ماہ کے لیے مؤخر کیا جا سکا ہے۔ ایران کے زیادہ تر جوہری اثاثے زیرِ زمین محفوظ رہے، اور امریکی حملے صرف داخلی راستے بند کرنے تک محدود رہے۔ اس سے ٹرمپ کے بلند بانگ دعوے بے بنیاد نظر آتے ہیں۔
اسرائیل بھی اس جنگ میں کسی اسٹریٹجک کامیابی کے بغیر ہی پیچھے ہٹ گیا۔ اگرچہ اس نے ایران کے اہم فوجی مراکز کو نشانہ بنایا، مگر ایران کے میزائل سسٹمز کو مکمل طور پر غیر مؤثر نہ بنا سکا۔ پہلی بار ایرانی میزائل اسرائیلی دفاعی نظام کو چیرتے ہوئے اہداف تک پہنچے، جو خود اسرائیل کے لیے تشویشناک ہے۔
جنگ بندی بھی بظاہر امریکی دباؤ کا نتیجہ تھی، نہ کہ کسی سنجیدہ سفارتی پیش رفت کا۔ دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر خلاف ورزی کے الزامات عائد کیے، اور جنگ بندی کی تصدیق میں گھنٹوں لگا دیے۔
اس ساری صورتِ حال سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ محض عسکری طاقت سے سیاسی اور اسٹریٹجک مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ ایران نہ صرف میدان میں کھڑا ہے بلکہ اب اپنے مؤقف کو “بڑی فتح” کے طور پر پیش کر رہا ہے۔