مبشر ندیم
خیبرپختونخوا کا مالی سال 2025-26 کا بجٹ جس انداز سے منظور کیا گیا، اُس نے پاکستان تحریک انصاف کی اندرونی کمزوریوں اور قیادت کے بحران کو ایک بار پھر نمایاں کر دیا ہے۔ بجٹ کی منظوری بظاہر پارٹی بانی عمران خان کی منظوری کے بغیر دی گئی، جس پر پارٹی کے اہم رہنماؤں، بشمول جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجہ اور عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان، نے کھل کر اعتراض کیا۔ دوسری جانب وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اس اقدام کو آئینی مجبوری قرار دیا جو حکومتی تسلسل کے لیے ناگزیر تھی۔
یہ تمام صورتحال اس بنیادی نکتے کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ عمران خان کے بغیر پی ٹی آئی کا تصور سیاسی طور پر ممکن نہیں۔ پی ٹی آئی صرف ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک سیاسی تحریک ہے جو عمران خان کی شخصیت، بیانیے اور عوامی مقبولیت کے گرد مرکوز ہے۔ عمران خان کی گرفتاری اور نااہلی کے باوجود، ان کی عوامی مقبولیت نہ صرف برقرار ہے بلکہ مختلف سروے اور عوامی ردعمل سے مزید مستحکم دکھائی دیتی ہے۔ عوام کا نعرہ “عمران خان زندہ باد” ہی اس بات کی دلیل ہے کہ پارٹی کی اصل طاقت اور شناخت اُن ہی سے جڑی ہے۔
“مائنس عمران” کے بیانیے نے نہ صرف کارکنان کو مایوس کیا بلکہ پارٹی کے نظریاتی وجود پر بھی سوال اٹھا دیے ہیں۔ عمران خان کی غیر موجودگی میں پارٹی میں قیادت کا خلا، فیصلوں میں انتشار اور حکمت عملی کی عدم موجودگی واضح ہو چکی ہے۔ اگرچہ آئینی طور پر بجٹ کی منظوری ناگزیر تھی، تاہم سیاسی طور پر یہ تاثر دینا کہ عمران خان کی رائے کی ضرورت نہیں، پارٹی کی بنیادوں کو ہلا دینے کے مترادف ہے۔
Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.
پی ٹی آئی کی سب سے بڑی کمزوری یہی ہے کہ اسے اب تک ایک ادارہ جاتی جماعت میں ڈھالا نہیں جا سکا۔ یہ جماعت ایک شخصیت کے گرد گھومتی ہے، جہاں بیانیہ، پالیسی اور حکمت عملی سب کچھ عمران خان کے تصور سے جڑے ہیں۔ اگر پارٹی کو واقعی زندہ اور مؤثر رکھنا ہے تو عمران خان کو قیادت کے مرکز میں رکھنا لازم ہے۔ اُن کے بغیر نہ صرف پارٹی کی عوامی مقبولیت متاثر ہوگی بلکہ اندرونی اختلافات اور انتشار بھی بڑھتا جائے گا۔
موجودہ سیاسی ماحول میں، جہاں اسٹیبلشمنٹ کو ایک بار پھر عوامی پذیرائی حاصل ہو رہی ہے، پی ٹی آئی کے لیے ماضی کی پالیسیوں پر انحصار ممکن نہیں رہا۔ اگر پارٹی نے سنجیدگی سے اپنے مستقبل کو محفوظ بنانا ہے تو اُسے نہ صرف عمران خان کی رہنمائی کو تسلیم کرنا ہوگا بلکہ اندرونی نظم و ضبط اور پالیسی سازی پر بھی توجہ دینا ہوگی۔
عمران خان کی عدم موجودگی میں کوئی دوسرا رہنما پارٹی میں ایسا نہیں جو اُن کی سطح کی عوامی حمایت اور قیادت کا ویژن فراہم کر سکے۔ اس حقیقت کو نظرانداز کرنا صرف سیاسی خودکشی ہوگی۔
پی ٹی آئی کو اب فیصلہ کرنا ہوگا: کیا وہ محض نعرہ بازی اور شخصیت پرستی پر انحصار کرتے ہوئے ماضی میں جینے کی کوشش کرے گی، یا پھر عمران خان کی قیادت میں ایک منظم، ادارہ جاتی اور پالیسی پر مبنی سیاسی جماعت بننے کی طرف قدم بڑھائے گی۔
موجودہ بحران ایک وارننگ ہے، ایک موقع بھی ہے۔ اگر اسے سنجیدگی سے لیا گیا تو پارٹی کے احیاء کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ بصورت دیگر، “مائنس عمران” کا انجام محض پارٹی کی تحلیل ہوگا۔