Premium Content

Add

“آلہ کار اور اعلی کار”

Print Friendly, PDF & Email

تحریر:           ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی

کالم نگار نشترمیڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کاحصہ ہے۔

ہمارے لوگوں کی اکثریت نہایت سادہ دل ہے اور دیہاتی ذہنیت کی حامل ہے۔اپنی سادگی کی وجہ سے ہمارے لوگ آج بھی سرکاری اہلکارکودیکھ کرڈرجاتے ہیں۔کسی ”آلہ کار“ کو دیکھ کرتوبعض اوقات لوگ باقاعدہ سہم جاتے ہیں اورکسی ”اعلی کار“ کودیکھ کرتو بھی اُن کادل ہولنے اورڈولنے لگتا ہے کہ پتہ نہیں ”کار“میں کوئی اعلیٰ شخصیت بیٹھی ہویاکسی اعلی شخصیت کا کوئی ”آلہ کار“ بیٹھا ہو۔بھلے وقتوں میں انسانی معاشرے ”آلہ کار“ اور”اعلیٰ کار“ دونوں کے بغیر گزارا کررہے تھے اور خوش وخرم تھے۔سادہ زندگی تھی۔نہ کوئی کسی کا ”آلہ کار“ تھااور نہ کسی کے پاس ”اعلیٰ کار“ تھی مگرخوشی ہرانسان کومیسر تھی۔ ہرآدمی اپنے ماضی سے خوش،اپنے حال پر مطمئن اور اپنے مستقبل کے بارے میں پُرامید تھا۔

          وقت بدلنا شروع ہوا۔پہلے کاریں آئیں پھر”اعلیٰ کاریں“ آئیں اوراپنے ساتھ ”آلہ کاروں“کازمانہ لائیں۔”اعلیٰ کار“ کی ہوس میں انسان خود”آلہ کار“ بننے لگ گیا۔انسان جوکبھی اشرف المخلوقات ہوتاتھا،کارجیسے آلات نے اُس کی فطرت بدلنا شروع کر دی۔ کارکامعیارتودن بدن اعلیٰ ہوتا گیامگرانسان اپنے معیاراوروقارسے گرکرفقط ایک ”آلہ کار“بن کے رہ گیا۔وہ ایک کا”آلہ کار“  تھا اورباقیوں کاسردارتھااگرچہ اخلاقاًبے کارتھا۔

         ”اعلیٰ کار“اور”آلہ کار“ کے اس رشتے نے باقی رشتوں کی خوبصورتی کودھندلادیااورانسانی تہذیب کو گہنادیا۔وہ ٹوٹا ہوا تارا جو ماہ ِکامل بن سکتاتھافقط ایک عامل بن کررہ گیااورعامل بھی وہ جوقظعاً کامل نہیں تھا۔ وہ نقطہ جو اُس کی ترجیحات میں کبھی شامل ہی نہیں ہوناچاہیے تھاوہی اُس کا محورحیات ٹھہرا۔اسی ایک رشتے کوثبات ٹھہرااورہرطرف ”آلہ کاروں“اور”اعلیٰ کاروں“ کی بہتات ہوتی گئی اس ہجوم میں ابن آدم اور بنت حواکی تلاش جوئے شیر لانے کے مترادف ٹھہری۔انسان جومسجودملائکہ تھااورباعث تعظیم خلائق تھا،اپنے رتبے سے دن بدن پستی میں گرنے لگااورپوری کائنات کوجس کا”آلہ کار“بنایاگیا تھاوہ خود”آلہ کار“بن کے رہ گیااوریہ ذلت بھی سہہ گیاکہ خود ”آلہ کار“ کہلانے لگااپنی ہستی کوگہن لگانے لگااورصدافسوس کہ اس تنزلی پراترانے لگا۔

         پہلے لوگ اول تو کسی کے ”آلہ کار“ہوتے نہیں تھے اوراگرکہیں کوئی اکادکاشخص کسی کا”آلہ کار“ بن بھی جاتاتھاتووہ اس بات کو تسلیم کرنایااپنی زبان سے کہناپھر بھی اپنی شان کے خلاف سمجھتاتھا”آلہ کار“ کالفظ ایک گالی کے مترادف تھامگر چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ ہر”صاحب کار“کے پاس بہت سارے”آلہ کار“ آگئے جوبڑے فخرسے سب کویہ بتانے لگے کہ فلاں بن فلاں کے ”آلہ کار“ ہیں۔ جو بات کبھی باعث ندامت تھی وہی عزت کامعیارٹھہری۔ جیسے جیسے کاربڑی ہوتی گئی ”آلہ کاروں“ کی تعدادبھی بڑھتی گئی اور انسانیت گھٹتی گئی۔کبھی کبھی تویوں لگنے لگتا ہے کہ ہرشخص کسی نہ کسی کا”آلہ کار“ہے اور ”آلہ کار“ بننے کی بنیادی وجہ اپنی خودی سے انکار ہے۔ پہلے ہمارے مقاصد اعلیٰ ہوتے تھے اورصرف اُن مقاصد کے حصول کیلئے لوگ کبھی کبھی ایک دوسرے کے ”آلہ کار“ بن جاتے تھے۔

      آلہ کاربہت ”پُرکار“اورایک پرکار کی طرح ہوتا ہے جس نے اپنی سرکار کے گرد دائرہ لگایاہوتا ہے۔نہ وہ اس دائرے میں کسی اورکوداخل ہونے دیتا ہے اورنہ خود کبھی اس دائرے سے باہر جاتا ہے۔ بعض اوقات کسی ”آلہ کار“کودیکھ کر الہامی کتاب کی یہ آیت یاد آنے لگتی ہے کہ ”بے شک قادرمطلق نے انسان کو اپنی بہترین تخلیق بنایاہے مگر یہ پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں اپنی مرضی سے، اپنے اعمال کے باعث گر جاتاہے“۔بعض اوقات یہی پستی اس کواپنی اوقات لگنے لگتی ہے حالانکہ اس کاوجود توبلندیوں کیلئے تخلیق کیا گیا ہے

         خمار گندم انسان کو بہشت سے زمین پرلے آیاتھا اور اب ”آلہ کاری“ کاخمار اور”اعلیٰ کاروں“ کی ہوس اُس کو پاتال سے بھی نیچے لے کر جارہی ہے۔انسان جس کو خالق کائنات نے بڑے مان اورپیارکے ساتھ اپنا خلیفہ بنایاتھا نہ صرف اپنے جیسے انسانوں کا ”آلہ کار“ بن گیا۔ بلکہ کبھی کبھی تویوں لگتا ہے کہ اب تو مدت ہوئی انسان اپنی ہی بنائی ہوئی چیزوں کا”آلہ کار“بن کے رہ گیا ہے۔شاعر مشرق نے بالکل ٹھیک پیش گوئی کی تھی کہ”دل کے لیئے مشینوں کی حکومت موت ہے اور احساس مروت کو آلات کچل دیتے ہیں۔ بعض لوگوں کارویہ دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ وہ آلات کے ”آلہ کار“ ہیں۔ ایک شاعرنے اپنا دُکھڑارویاتھاکہ ”زندگی اُس کی تھی مگر بسرکسی اور نے کی“۔ اب زندگی ہماری ہے مگر بسر آلات کررہے ہیں اوراب ہمارے خیالات کامحور بھی آلات ہی ہیں۔انہوں نے ہماری سوچ کو بھی اپنا”آلہ کار“ بنالیا ہے۔ زندگی کی معنویت بے کار ہوتی جارہی ہے۔دعا ہے کہ انسان اللہ کاخلیفہ ہی رہے اورباقی سارا جہان اُس کا ”آلہ کار“ ہو۔

1 thought on ““آلہ کار اور اعلی کار””

  1. جناب بھٹی صاحب موجودہ حکومت نے “اعلی کاروں” پر تو پابندی لگا دی ہے دیکھتے ہیں کہ اس سے “آلہ کاروں” پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

AD-1