اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے منگل کو پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی جانب سے اٹک جیل میں سائفر کیس کی سماعت کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
پی ٹی آئی کے سربراہ کو توشہ خانہ کیس میں سزا سنائے جانے کے بعد 5 اگست کو جیل بھیج دیا گیا تھا۔ 29 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی سزا کو معطل کر دیا تھا۔ تاہم، ایک خصوصی عدالت نے اٹک جیل حکام کو ہدایت کی تھی کہ وہ سائفر کیس کے سلسلے میں انہیں جوڈیشل لاک اپ میں رکھیں۔
گزشتہ ماہ، وزارت قانون نے انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) کے جج ابوال حسنات ذوالقرنین کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مشتبہ افراد پر مقدمہ چلانے کے لیے خصوصی عدالت کا جج نامزد کیا تھا۔
بعد ازاں خصوصی عدالت نے اٹک جیل میں ہونے والی سماعت کے دوران عمران کے جوڈیشل ریمانڈ میں 13 ستمبر تک توسیع کر دی۔
30 اگست کو عمران نے خصوصی عدالت میں جج ذوالقرنین کی تقرری کے خلاف آئی ایچ سی سے رجوع کیا تھا اور وزارت قانون کی جانب سے مقدمے کی جیل میں سماعت کی اجازت دینے کے نوٹیفکیشن پر بھی اعتراض اٹھایا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے آج کی سماعت کی جس دوران پی ٹی آئی سربراہ کی جانب سے وکیل شیر افضل مروت پیش ہوئے۔
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.
مروت نے وزارت قانون کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن پڑھ کر سنایا۔ اس کے بعد انہوں نے ان قوانین پر سوالات اٹھائے جن کے تحت وزارت نے مقدمے کو اٹک جیل منتقل کرنے کی اجازت دی تھی۔
وکیل نے پوچھاکہ مقدمہ اسلام آباد سے پنجاب کیسے منتقل کیا جا سکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ صرف سپریم کورٹ ہی مقدمے کو ایک صوبے سے دوسرے صوبے منتقل کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا، چیف کمشنر یا سیکریٹری داخلہ کو مقدمے کی سماعت دوسرے صوبے میں منتقل کرنے کا اختیار نہیں ہے،انہوں نے مزید کہا کہ کیس کی سماعت کو اٹک جیل منتقل کرنے کا اقدام ’’بد نیتی‘‘ پر مبنی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سماعت کے مقام کی تبدیلی کے نوٹیفکیشن کا مقصد عمران کو اٹک جیل میں رکھنا تھا۔ مروت نے کہا کہ ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ نوٹیفکیشن کن قوانین کے تحت جاری کیا گیا ہے۔
انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ صرف سپریم کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مقدمے کو اسلام آباد سے دوسرے صوبے میں منتقل کرے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ایک خود مختار علاقہ ہے اور کسی صوبے کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔
انہوں نے کہا کہ سماعت کے مقام کو تبدیل کرنے کا طریقہ کار قانون میں واضح طور پر درج ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے کے لیے متعلقہ جج کی رضامندی بھی ضروری ہے۔