پاکستان کی گورننس کا چھپا ہوا بحران

[post-views]
The rule one of the civil service reforms is to implement the constitutional of Pakistan on the creation and reformation processes.
[post-views]

طارق محمود اعوان

پاکستان میں سیاستدانوں کو عموماً عوامی حلقوں میں منفی طور پر پیش کیا جاتا ہے، اور اس تاثر کی ایک حد تک توجیہہ بھی موجود ہے کیونکہ بدعنوانی، نااہلی اور وعدہ خلافیوں کی مثالیں سامنے آتی رہی ہیں۔ تاہم، یہ امر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ انہی سیاستدانوں نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کی تشکیل اور اس کے تسلسل میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ تمام تر خامیوں کے باوجود سیاستدانوں نے ملک کے نظم و نسق کے ڈھانچے کو ترتیب دیا اور ایک پیچیدہ جغرافیائی و سیاسی ماحول میں پاکستان کی بقا کی کوششیں کیں۔

حالیہ برسوں میں فوج کا سیاست میں بڑھتا ہوا کردار بھی شدید تنقید کی زد میں آیا ہے۔ اسی طرح، عدلیہ پر بھی اس وقت اعتراضات کیے جا رہے ہیں جب وہ ان معاملات میں مداخلت کرتی ہے جو دستور کے مطابق مقننہ اور انتظامیہ کے دائرہ کار میں آتے ہیں، جس سے ریاستی اداروں کے درمیان توازن بگڑتا ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ بیوروکریسی، جس میں پولیس بھی شامل ہے، اس سطح کی کڑی تنقید سے اکثر بچی رہی ہے۔ یہ ادارے حکومتی معاملات اور قانون و انصاف کی عملی صورت گری میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، لیکن ان کی طاقت اور ذمے داریوں کا تنقیدی جائزہ کم ہی لیا جاتا ہے۔ بیوروکریسی کی غیر محدود طاقت بدعنوانی، نااہلی اور ناانصافی کے تسلسل کو فروغ دیتی ہے، جس کے نتیجے میں یہ طبقہ پاکستان کے سیاسی اور انتظامی مسائل کا ایک اہم مگر نظرانداز شدہ پہلو بن گیا ہے۔

پاکستان کے نظام حکومت میں بیوروکریسی کا کردار اکثر کم تر سمجھا جاتا ہے۔ حکومت تین ستونوں پر مشتمل ہے: مقننہ، انتظامیہ، اور عدلیہ۔ انتظامیہ خود دو حصوں میں منقسم ہے: سیاسی قیادت اور بیوروکریسی۔ عوامی مینڈیٹ رکھنے والی سیاسی قیادت پالیسی مرتب کرتی ہے، لیکن اس پر عمل درآمد کا کام بیوروکریسی کے سپرد ہوتا ہے۔ یوں بیوروکریسی حکومت کا عملی بازو ہے جو قوانین کا نفاذ، پالیسیوں کا اطلاق، اور عدالتی احکامات کی تکمیل کرتی ہے۔

تاریخی طور پر، جب بھی سیاسی قیادت کمزور یا غیر مستحکم رہی، بیوروکریسی نے خلا کو پُر کیا۔ بعض اوقات تو یہ پالیسی سازی میں بھی معاون رہی اور سیاسی رہنماؤں کو فیصلے کرنے میں رہنمائی فراہم کی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بیوروکریسی نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے عدلیہ کو بھی بعض مواقع پر متاثر کرنے کی کوشش کی، جس سے اس کی ریاستی ڈھانچے میں طاقت مزید مستحکم ہوئی۔

1973ء کے آئین نے ریاستی اختیارات کی علیحدگی کو واضح کیا، خاص طور پر عدلیہ کی آزادی کو انتظامیہ سے الگ کرنے کا اہتمام کیا گیا۔ تاہم، بیوروکریسی کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ وہ آج بھی پس پردہ طاقت کا ایک مؤثر مرکز بنی ہوئی ہے اور اپنے مفادات کے تحفظ میں مصروف رہتی ہے۔ یہی غیر جواب دہ طاقت پاکستان کی حکمرانی کے بحران کا ایک بنیادی سبب ہے۔

پاکستان نے آزادی کے وقت نوآبادیاتی طرز کی ایک سخت گیر بیوروکریسی کا ورثہ حاصل کیا، جو درحقیقت عوامی خدمت کے بجائے کنٹرول پر مرکوز تھی۔ توقع تھی کہ سیاسی قیادت اس نظام کو جمہوری تقاضوں کے مطابق ڈھالے گی، لیکن یہ عمل مکمل نہ ہو سکا۔ اس کی بنیادی وجہ سیاسی قیادت کی کمزوریاں اور غیر منتخب اداروں کی مضبوط گرفت رہی۔ سیاسی قیادت نے وفاقی اور صوبائی سطح پر پرانے اصول و ضوابط کو تبدیل کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی، جس کے باعث انتظامی ڈھانچہ آج تک نوآبادیاتی طرز پر چل رہا ہے۔ اگرچہ سیاسی قیادت کے پاس اختیار موجود رہا، لیکن مسلسل حکومتیں بیوروکریسی کے مضبوط نیٹ ورک کو چیلنج کرنے سے گریزاں رہیں۔

سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ بیوروکریسی کو غیر رسمی طاقت کے مراکز کی پشت پناہی حاصل ہے، جس کی وجہ سے مؤثر اصلاحات کا نفاذ مشکل ہوتا ہے۔ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ حکومتی نظم و نسق کی اصل طاقت بیوروکریسی ہی کے پاس ہے، خاص طور پر وفاقی سطح پر جہاں یہ اکثر کابینہ کی فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ صوبوں میں بھی چیف سیکریٹریز اکثر چیف منسٹرز کے ہم پلہ طاقت رکھتے ہیں، جس سے منتخب قیادت غیر مؤثر ہو جاتی ہے۔ ضلعی سطح پر مقامی حکومتوں کی ترقی کی راہ میں بھی بیوروکریسی بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے، اور یہ اکثر مرکزی سیاسی اشرافیہ کے ساتھ مل کر جمہوری ارتقا کو روکنے کا سبب بنتی ہے۔

بیوروکریسی محض ایک غیر جانب دار ادارہ نہیں رہی، بلکہ اس نے بارہا اپنے ذاتی مفادات کے لیے اقدامات کیے اور جمہوری اصلاحات اور اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔

پاکستان میں بیوروکریسی کو وفاقی، صوبائی اور ضلعی سطح پر بے پناہ اختیارات حاصل ہیں۔ وزارتوں، محکموں، ذیلی اداروں اور خودمختار اداروں کے سربراہان کی حیثیت سے بیوروکریٹس مالی اور انتظامی فیصلوں پر مکمل کنٹرول رکھتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر یہ سب کچھ عوامی خدمت کے نام پر ہوتا ہے، لیکن جواب دہی کا فقدان ہے۔ نہ تو مقننہ اور نہ ہی سیاسی قیادت ان پر مؤثر نگرانی رکھ پاتی ہے، اور عدلیہ کی مداخلت بھی عمومی عدالتی جائزے تک محدود رہتی ہے۔

بیوروکریٹس کی مراعات مثلاً سرکاری رہائش، سرکاری گاڑیاں، سبسڈی والے پلاٹ، غیر ملکی وظائف، اور دیگر غیر اعلان شدہ فوائد اکثر غیر منظم اور بے ضابطہ ہوتے ہیں۔ سیاسی قیادت بھی ان مراعات کا آڈٹ کرنے یا ان پر قدغن لگانے میں ناکام رہی ہے، جس کے نتیجے میں بیوروکریسی میں ایک استحقاق پر مبنی اور سزا سے مبرا کلچر پروان چڑھا ہے۔ بدعنوانی یہاں نظام کا حصہ بن چکی ہے، لیکن تادیبی کارروائی شاذونادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔

بیوروکریسی کی بدعنوانی اب نہایت پیچیدہ شکل اختیار کر چکی ہے۔ کئی افسران براہِ راست بدعنوانی کے بجائے مختلف ایجنٹوں کے ذریعے کام کرتے ہیں تاکہ خود کو محفوظ رکھ سکیں۔ عوامی وسائل پر مکمل اختیار کے باوجود، یہ ادارہ اچھی حکمرانی دینے میں مسلسل ناکام رہا ہے، جس کی وجہ سے عوام کا ریاست پر اعتماد کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ اس تناظر میں ایک خودمختار کمیشن کی ضرورت ہے جو بیوروکریٹس کے اثاثہ جات کا شفاف اور جامع جائزہ لے۔ خاص طور پر اس امر کی چھان بین ضروری ہے کہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے کئی افسران کس طرح اپنے کیریئر کے اختتام پر غیر معمولی دولت اور دوہری شہریت کے مالک بن جاتے ہیں۔ یہ عدم مطابقت بدعنوانی کی نشاندہی کرتی ہے اور اس کی شفاف جانچ لازمی ہے۔

بیوروکریسی نہ صرف مقننہ، سیاسی قیادت اور عدلیہ کو ناکام بناتی ہے بلکہ عوام کو بھی نقصان پہنچاتی ہے، جن کی خدمت اس کی بنیادی ذمے داری ہے۔ اگرچہ یہ ادارہ غیر منتخب ہے، لیکن مالی اور انتظامی طاقت کا محور بن چکا ہے، جس سے ریاست کا نظام متاثر ہوتا ہے۔ سیاستدانوں پر اکثر بدعنوانی کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اکیلے کچھ نہیں کر سکتے؛ بیوروکریسی کی عملی شمولیت کے بغیر بدعنوانی ممکن نہیں۔ بدقسمتی سے، اپنی پسندیدہ تعیناتیوں اور ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر بیوروکریٹس ایسے غیر قانونی احکامات پر عمل درآمد کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ انتخابی نتائج میں رد و بدل ہو یا ترقیاتی منصوبوں میں کرپشن، بیوروکریسی کی شمولیت ایک کھلی حقیقت ہے۔ طاقت کا اصل مرکز فائلیں اور ڈیٹا ہوتے ہیں، جنہیں اکثر جان بوجھ کر مسخ کر کے پالیسی سازوں کو گمراہ کیا جاتا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ جہاں سیاستدان، عدلیہ اور فوج مسلسل عوامی تنقید کی زد میں رہتے ہیں، وہیں بیوروکریسی کو اس طرح کے شدید جائزے سے استثنیٰ حاصل رہا ہے۔ اس روش کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان کے سیاسی و انتظامی ڈھانچے میں حقیقی شفافیت، مؤثر حکمرانی، اور عوامی مفاد کے فروغ کے لیے بیوروکریسی کی کارکردگی اور کردار کا سنجیدہ تجزیہ اور اصلاحات ناگزیر ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos