پاکستان کا بجٹ اور منافقت

[post-views]
[post-views]

پاکستان میں سرکاری خزانے کی حالت کا ذکر جب بھی آتا ہے، تو ہمیشہ ایک ہی جملہ سننے کو ملتا ہے : خزانہ خالی ہے! یہ جملہ اس وقت بھی دہرایا جاتا ہے جب سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی بات ہو، صحت و تعلیم کے بجٹ میں بہتری کی امید رکھی جائے، بجلی اور پیٹرول کی ناقابلِ برداشت قیمتوں میں کچھ ریلیف مانگا جائے، یا کوئی عوامی فلاحی منصوبہ شروع کرنے کی خواہش کی جائے۔

حالیہ دنوں میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران کھلے الفاظ میں واضح کیا کہ وفاقی حکومت کے ملازمین کی پنشن میں آئندہ مالی سال میں کسی خاطر خواہ اضافے کی کوئی تجویز زیرِ غور نہیں۔ سیدھی سی بات تھی: خزانے میں پیسے نہیں ہیں۔

لیکن یہ “خالی” خزانہ اچانک بھر جاتا ہے جب حکمران طبقے کی بات آتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر گزشتہ ہفتے حکومت نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا جس کے مطابق وفاقی وزیروں اور وزرائے مملکت کی تنخواہیں 200,000 روپے اور 180,000 روپے سے بڑھا کر 519,000 روپے ماہانہ کر دی گئیں۔ یہ اضافہ 160 تا 180 فیصد ہے اور اسے جنوری سے نافذ العمل قرار دیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس اضافے کو فوری طور پر نافذ کرنے کے لیے صدرِ پاکستان نے ایک آرڈیننس جاری کیا، تاکہ اس پر کوئی تاخیر نہ ہو۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ حکمران طبقے نے خود پر مہربانی کی ہو۔ فروری میں ارکانِ قومی اسمبلی اور سینیٹرز کی تنخواہیں بھی 175 فیصد بڑھائی گئی تھیں، تاکہ ان کی مالی حالت مزید “مستحکم” ہو سکے۔

Please subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality podcasts:

سوال یہ ہے کہ جب ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے، عام آدمی دن رات قربانیاں دے رہا ہے، بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتیں عوام کی کمر توڑ رہی ہیں، تو کیا حکمران طبقے کو اس قسم کے مالی فائدے لینے چاہئیں؟ کیا یہ لوگ، جو عوامی نمائندے کہلاتے ہیں، خود کو عوام کے ساتھ کھڑا دکھانے کے بجائے اپنی جیبیں بھرنے کو ترجیح دے رہے ہیں؟

یہ صرف بجٹ کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک گہرا اخلاقی اور سماجی سوال بھی ہے۔ حکومت اگر واقعی سنجیدہ ہوتی تو پہلے خود کفایت شعاری کی مثال قائم کرتی، عوام کو دکھاتی کہ ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں، اور بحران کی گھڑی میں خود بھی قربانی دیتے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں حکمران طبقہ ایک ایسی سوچ کا عادی ہو چکا ہے جہاں اقتدار کا مطلب ہی ذاتی مفادات کا تحفظ سمجھا جاتا ہے۔

اس طرزِ عمل کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ عوام اور حکمرانوں کے درمیان فاصلہ مزید بڑھ رہا ہے۔ ایک طرف عوام ہے جو بنیادی سہولیات کے لیے ترس رہی ہے، دوسری طرف وہ لوگ ہیں جنہیں ووٹ دے کر ایوانوں میں بھیجا گیا اور وہ عوام کی قربانیوں پر عیش کر رہے ہیں۔

بجٹ کا جائزہ لیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ تعلیم، صحت اور عوامی فلاح و بہبود ہمیشہ کم ترین ترجیحات میں شامل رہی ہیں۔ حکومت کی ترجیحات میں اکثر انتظامی اخراجات، قرضوں کی ادائیگی اور حکمران طبقے کے فائدے کو اولین حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عام آدمی کی زندگی دن بہ دن مشکل سے مشکل تر ہو رہی ہے جبکہ حکمرانوں کی عیاشیوں میں کمی نہیں آتی۔

یہ مسئلہ صرف تنخواہوں تک محدود نہیں۔ اس کی جڑیں ایک ایسے نظام میں پیوست ہیں جہاں پالیسی سازی عوامی خدمت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ذاتی مفاد کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب عوام کے فائدے کی بات آتی ہے تو خزانہ خالی ہو جاتا ہے، لیکن جب حکمران طبقے کی بات ہوتی ہے تو وہی خزانہ نوٹوں سے بھر جاتا ہے۔

یہ رویہ نہ صرف معاشی بدانتظامی کو بڑھا رہا ہے بلکہ جمہوری اقدار کو بھی کمزور کر رہا ہے۔ جب حکومت بغیر کسی عوامی مشاورت یا پارلیمانی بحث کے آرڈیننس جاری کر کے اپنی تنخواہیں بڑھا لیتی ہے تو یہ صرف مالی بدعنوانی نہیں بلکہ جمہوری اصولوں کی خلاف ورزی بھی ہے۔

سوال یہ ہے کہ آخر کب تک یہ دوغلا پن چلے گا؟ کب تک عوام کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا رہے گا اور حکمران طبقہ اپنا الو سیدھا کرتا رہے گا؟ اور سب سے بڑھ کر، کیا پاکستان کے حکمران کبھی اپنی ذات سے آگے سوچ پائیں گے؟

حقیقی قیادت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ خود کو عوام کے ساتھ برابر کے مقام پر رکھے، نہ کہ اپنے آپ کو مراعات یافتہ طبقہ بنا کر الگ تھلگ کرے۔ آج پاکستان کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو صرف زبان سے نہیں بلکہ عمل سے ثابت کرے کہ وہ عوام کے دکھ درد کو سمجھتی ہے اور ان کے ساتھ کھڑی ہے۔

جب تک حکمران طبقے کی ترجیحات میں عوامی فلاح شامل نہیں ہو گی، تب تک یہ تضاد اور منافقت پاکستان کے معاشرتی اور معاشی ڈھانچے کو دیمک کی طرح کھاتے رہیں گے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos