گداگری: ایک لعنت

تاریخ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ برادریوں کا وجودعرصہ قدیم سے موجود تھا۔ لیکن قومی ریاست کے تصور کے ظہور نے پوری دنیا میں قومی  تصورات کو جنم دیا۔ اس نے دنیا کے نقشہ پر خیالی لکیریں کھینچیں تاکہ انسانوں کی قومیت کا تعین کیا جا سکے۔ اس نے ایک کمیونٹی اور قوموں کے اندر افراد کے درمیان مسابقت کو فروغ دیا۔ قومیت کے تصور نے قوموں کے مابین بعض برائیوں سے اجتناب اور بعض خوبیوں کو اپنانے کی مزید وضاحت کی۔

اس سلسلے میں پاکستان نے ایک خودمختار سیاسی وجود کے طور پر دنیا کا مقابلہ کرنے کے لیے بعض برائیوں کو اکھاڑ پھینکنے اور بعض اچھائیوں کو معاشرے میں ابھارنے پر کبھی توجہ نہیں دی۔ بلاشبہ سماجی سطح بندی ہمیشہ سماجی برائیوں کا باعث بنتی ہے۔ گداگری ایک سماجی برائی ہے جو ایک اچھی  قوم کے لیے تشویشناک صورتحال پیدا کر تی ہے۔ یہ کچھ دہائیوں سے پاکستان میں بہت تیزی سے پھیل گئی ہے۔ پاکستان میں نہ تو ریاست نے اور نہ ہی عوام نے کبھی اس برائی کی مذمت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ریاست اور عوام دونوں اس لعنت کے تیزی سے پھیلنےکے ذمہ دار ہیں۔

گداگری جیسی لعنت سے کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں ہے۔ بازاروں، مقدس مقامات، عدالتوں، ہسپتالوں، بس سٹاپ، شاپنگ مالز، کیفے، تعلیمی اداروں اور گلیوں وغیرہ ہر جگہ بھکاریوں نے ڈھیرے ڈالیں ہیں۔ گداگری اب ایک پیشہ بن چکا ہے۔ اس پیشے میں اب ہر عمر کے افراد مثال کے طور پر نابالغ لڑکےاور لڑکیاں، ہر عمر کے مرد اور عورتیں شامل ہیں۔ ان بھکاریوں نے بحرانوں کے شکار ملک میں حق دار لوگوں کی حق تلفی شروع کی ہوئی ہے۔

ریاست میں گداگری  کے پھیلاؤ کے سینکڑوں وجوہات اور عوامل ہو سکتے ہیں۔ لیکن ریاست اور افراد کی ذمہ داری قابل ذکر ہے۔ اس وقت پاکستان میں مہنگائی کی بلند شرح کی وجہ سے غربت عروج پر ہے۔ اس کے باوجود، لوگوں کو پیداواری کام میں شامل کرنے کے لیے صنعتی زونز کی کمی ہے۔ ریاست قدرتی اور انسانی وسائل کے انتظام کی خودمختار ادارہ کے طور پر پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کو ہنرمند افرادی قوت اور پیداواری کارکنوں میں تبدیل نہیں کر سکی۔

Don’t forget to Subscribe our channel & Press Bell Icon.

اسی طرح پاکستان میں لوگ بہت سخی ہیں۔ وہ پیشہ ور بھکاریوں کی حوصلہ شکنی کیے بغیر خیرات دے دیتے ہیں۔ مذہبی رحجان کے باعث بھی بھکاری مختلف شکلوں میں پائے جاتے ہیں۔ ایک  عام آدمی کی انسانیت اور مذہبی جذبات کو استعمال کرکے وہ خیرات حاصل کرتے ہیں۔ بے روزگاری کی وجہ سے، خصوصی افراد یا مختلف صلاحیتوں سے ہٹ کر نوجوان بھیک مانگنے کی طرف جا رہے ہیں۔ نشے کے عادی افراد کو دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتے۔ پاکستان میں گداگری  ایک منافع بخش کاروبار اور کمائی کا آسان طریقہ بن گیا ہے۔

بحرانوں میں گھرے ملک کے حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ  خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے غربت بڑھ رہی ہے۔ لوگوں کو بنیادی ضروریات تک رسائی مشکل سے مل رہی ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے چھوٹے بچے اور خواتین بھی گداگری کی طرف تیزی سے آ گئے ہیں۔

اسلام میں گداگری کی کبھی بھی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی بلکہ اس کے خاتمہ کے لئے ایک منظم نظام ترتیب دیا گیا تاکہ معاشرے میں موجود کمزور افراد کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے، اور وہ اس طریقہ سے معاشرے میں شامل ہوکراپنا کردار ادا کرے۔ اسلام نے اس مقصد کے لیے زکوٰۃ، صدقات وغیرہ کا نظام ترتیب دیا ہے، تاکہ کوئی بھی لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنے پر مجبور نہ ہو اور معاشرہ گداگری کی لعنت سے پاک رہے۔ اسلام کا یہ فلسفہ حیات صرف نظری نہیں ہے جو صفحہ قرطاس کی زینت ہوا کرتا ہے بلکہ عملی بھی ہے، جس کا تجربہ بارہا کیا جا چکا ہے۔ اسلام کے اسی نظام کی بدولت حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دور میں حالات اس قدرتبدیل ہو گئے تھے کہ لوگ زکوٰۃ وصدقات لے کر مستحق لوگوں کو ڈھونڈتے تھے لیکن کوئی زکوٰۃ اور صدقہ لینے والا نہیں ملتا تھا۔ لہٰذا وہ اسے بیت المال میں جمع کرا دیا کرتے تھے۔

آج کل گداگری کے پیشے سے وابستہ لوگ جو درحقیقت میں نکمے، کام چور، کاہل، شاطر اور چالباز ہوتے ہیں، لوگوں کو متاثر کرنے کیلئے یہ دیندار لوگوں کی طرح وضع قطع اختیار کرلیتے ہیں، لیکن ان کا دین سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔  اس لعنت میں خطرناک مافیا والے بھی شریک ہوچکے ہیں جو چھوٹے بچے اور بچیوں کو اغواء کرکے ان کے ہاتھ پیر توڑ دیتے ہیں یا پھر انہیں اندھا کردیتے ہیں اور پھر انہیں بھیک منگوانے کے لئے بڑا کرتے ہیں اس لئے کہ معذور قسم کے افراد لوگوں کی زیادہ توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں، اور ہمدردی کے طور پر انہیں بھیک دے دیتے ہیں۔

آن لائن رپبلک پالیسی کا میگزین پڑھنے کیلئے کلک کریں۔

یہ برائی ہمارے معاشرےمیں عام ہو چکی ہے لیکن آخر اس برائی کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے؟ اس برائی سے نمٹنے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ ریاست، معاشرہ یا  انفرادی ؟ یہ بات بھی تشویشناک ہے کہ پاکستان میں ایسی برائیوں کے لیے نہ کسی کو موردِ الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔

مختصر یہ کہ یہ ایک سماجی برائی ہے۔ جو ریاست اور معاشرے کے لیے یکساں ہے۔ یہ ریاست اور معاشرے کی ایک  اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ریاست اور سماج دونوں کو اس کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ بھیک مانگنے میں جلدی کرنے سے پہلے اپنے صدقات اور خیرات وقت پر مستحق افراد  کو ادا کریں۔ ریاست کو پیشہ ور بھکاریوں کی زنجیر اور چینلز کو توڑنا چاہیے۔ انہیں دستی کام اور صنعتی قید پر مجبور کرکے سزا دی جانی چاہئے۔ معاشرے کو تنزلی سے بچانے کے لیے ریاست کو کچھ فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس برائی کو ختم کرنے کے لیے مذہبی افراد  کو آگے آنا چاہیے تاکہ ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو جو مذہب کے نام پر بھیک مانگتے ہیں اور  قوم  ترقی اور خوشحالی کی راہ پر چل پڑے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos