
دنیا کی نظر میں اپنے ورثے اور روایات کو محفوظ کرنے کے ضمن میں ہمارا ریکارڈ کبھی بھی قابل رشک نہیں رہا مگر اپنے قریبی رشتے داروں کو سوئے دار تک پہنچانے کی جو روایت ہمارے ہاں دور قدیم سے چلی آ رہی ہے آج کے دور میں بھی اکثر لوگ اس کی مکمل پاسداری کر رہے ہیں اور اگر وہ اپنے عزیز و اقارب کو دار پرنہ چڑھا سکیں تو ساری زندگی شرمندگی سے خود ذہنی طور پر دار پر لٹکے رہتے ہیں۔
زندگی سب کے لئے ہی پرخار ہے مگر بعض لوگوں کی زندگی کا ہر لمحہ ہی نوک دار ہے اور ان لمحوں میں ان کے قریبی رشتہ داروں کا جو کردار ہے اس کے بعد ان کا ہر لمحہ سردار ہے۔ابن انشاء نے ہمارے انتہائی قابل احترام حکمران کے بارے میں ایک لاثانی اور لافانی جملہ لکھا ”انہوں نے نماز بھی کوئی نہیں چھوڑی اور بھائی بھی کوئی نہیں چھوڑا“ ۔
جدید دور میں ہم اتنی کوتاہی کے ضرور مرتکب ہوتے ہیں کہ نماز ہم چھوڑ دیتے ہیں لیکن بھائی ہم بھی نہیں چھوڑتے۔ بھائیوں کو لے کر روایات کی پاسداری پوری آب و تاب کے ساتھ آج بھی جاری ہے۔اپنے سردار کو سردار تک پہنچانے میں ہمارا کردار دنیا کی تمام اقوام کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے اور اس سلسلہ میں نہ کوئی ماضی میں ہمارا مقابلہ کر سکا ہے اور نہ ہی موجودہ دور میں کوئی ہمارا مقابل ہے اور مستقبل میں بھی مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں کسی سے مقابلے کا خطرہ ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ غیر اقوام یہ بات کہہ کر بھول گئیں کہ اچھے کام کی ابتدا اپنے قریبی لوگوں سے کرنی چاہیے مگر ہمارے حکمران یہ بات کبھی نہیں بھولے اس لیے انہوں نے ہر دور میں لوگوں کو دنیا کے دکھوں سے نجات پہنچانے کا عمل اپنے گھر سے شروع کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ اس دنیا میں تمام مصائب کا مقابلے کرنے کے لئے وہ خود اپنی ذات کی قربانی دیں اور ان کے تمام قریبی رشتے دار دوسرے جہان کی خوبصورتیوں سے لطف اندوز ہوں۔
جب بھی کوئی رشتہ دار اپنے ان فرائض منصبی سے ذرا سی بھی غفلت برتتا تو یہ فرض کوئی تابعدار، فرمانبردار یا وفادار فوراً سرانجام دے ڈالتا تاکہ اس روایت کی پاسداری میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ہمارے بزرگ شروع سے بڑے سمجھدار تھے اور وہ یہ جانتے تھے کہ ایک زمانے میں ایسے لوگ آئیں گے جو ایسی بے ہودہ خرافات پہ یقین رکھیں گے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا اس لیے انہوں نے پیش بندی کے طور پر اپنے رشتے داروں میں اپنے علاوہ کسی کو زندہ نہیں چھوڑا ایسے بزرگوں کی تعداد ہر دور میں کافی کثیر رہی ہے جو یہ فریضہ سرانجام دینے میں کسی تاخیر اور کوتاہی کے قطعاً مرتکب نہیں ہوئے۔
اس کے باوجود جو لوگ اس طرح کی خرافات پہ یقین رکھتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پہ پھیلا ہے ان کے لئے ہمارے پرانے بادشاہوں کا اپنے رشتہ داروں کے ساتھ سلوک ان کے اس غلط یقین کے نہلے پر دہلا ہے۔اگر ان کی تمام قربانیوں کے باوجود بھی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں کی تلوار اپنوں سے زیادہ غیروں پر چلی ہے تو ان کو تاریخ کا دوبارہ مطالعہ کرنا چاہیے اور تعصب کی عینک اتار کر ہمارے بزرگوں کی مساعی کی کماحقہ تحسین کرنا چاہیے۔
یورپی اقوام نے ایک زمانے میں یہ قانون بنا لیا تھا کہ حکومت سب سے بڑے آدمی کو دی جائے گی۔ ہمارے ہاں شاید اس زمانے میں یہ قانون بنالیا گیا تھا کہ حکومت سب سے برے آدمی کو دی جائے گی۔ جو دوسروں کو تہ تیغ کرنے میں کامیاب ہوجاتا حکومت ہمیشہ اسی کو ملتی۔کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب تک حضرت آدم کا کوئی رشتہ دار نہیں تھا تو وہ جنت میں رہ رہے تھے جب ان کا رشتہ داروں کے ساتھ واسطہ پڑا تو انہیں جنت چھوڑنی پڑی۔
ان کی رائے میں وزن ہوگا مگر آج کل تو ہمارے رشتہ دار ہمیں جنت پہنچانے کا ذریعہ بنتے ہیں اور اگر ہم اپنی تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو سب سے زیادہ رشتہ داروں نے ہی رشتے داروں کو جنت پہنچایا ہے ہاں اگر کوئی رشتہ دار اپنی اس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے اور آپ اس کے بعد بھی زندہ رہیں تو آپ کی قسمت ہے اس کا تو کوئی قصور نہیں۔ جسمانی طور پر سولی دینے کا رواج آج کل اتنا نہیں رہا اس لیے رشتہ دار دوسرے رشتہ داروں کو ہر وقت ذہنی طور پر سولی پر چڑھائے رکھتے ہیں۔
اپنے سردار کو سردار تک پہنچانے میں ہمارا ریکارڈ دنیا کی دیگر تمام اقوام سے بہت بہتر ہے ٹی وی کے ایک اشتہار میں کسی چیز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کوئی مقابل نہیں دور تک تو شاید اس معاملے میں ہمارا بھی کوئی مقابل دور دور تک نہیں ہے اور مستقبل میں بھی تادیر بھی کوئی ہمارا مقابل مجھے نظر نہیں آ رہا۔دنیا بنی ہی رشتہ داروں کی وجہ سے ہے اور دنیا کی ساری رونقوں کے ذمہ دار بھی رشتے دار ہی ہیں۔ حضرت آدم کا جب پہلا رشتہ بنا تو انہیں اس دنیا میں آنا پڑا۔ جیسے جیسے رشتے بڑھتے گئے دنیا کی رنگینی اور سنگینی میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔ زر، زن، زمین اور اس طرح کے دیگر تمام معاملات میں جان رشتے دار ہی ڈالتے ہیں۔ میں اتنا کہوں گا۔”وجود رشتہ دار سے ہے تصویر کائنات میں رنگ و زنگ“