
“شادی نہیں ہو رہی تھی، لمبے عرصہ تک اداس رہے،اب میری وجہ سے خوش رہتے ہیں” ۔ درمیانی عمر کی لیڈی ڈاکٹر نے انتہائی خوش دلی سےکہا اور کھلکھلا کے ہنسنے لگی۔ انٹرویو پینل کے ممبر نے بتایا “بچہ پیدا ہوتے روتا ہے ۔ ثابت ہوا کہ رونا ہماری جبلت میں ہے۔ ہنسنا سیکھنا پڑتا ہے اور سکھانا بھی پڑتا ہے “۔آپ بھی اپنے شوہر کو ہنسنا سکھائیں”۔ انٹرویو کرنے والا پینل ڈاکٹر صاحبان پر مشتمل تھا تو امید واران بھی ڈاکٹر صاحبان اور لیڈی ڈاکٹر صاحبان تھیں۔پینل میں شامل ایک ڈاکٹر صاحب کا قصہ عجیب تھا ۔جب وہ زیرِ تعلیم تھے تو ہر دوست اصرار کرتا تھا :- ” بھائی میرے ساتھ ساتھ رہا کرو۔ تم ساتھ ہوتے ہو تو بند ہ پر اعتماد رہتا ہے کہ تمہارے جیسے بندہ اگر میڈیکل کالج میں آ سکتا ہے تو ہم تو پھر دنیا بدل سکتے ہیں”۔ اب تو ہمارےافسر ڈاکٹر صاحب انتہائی فربہ ہو چکے ہیں۔ پیٹ بھی کنٹرول سے باہر ہو چکا ہے لیکن زمانہ طالب علمی کا المیہ ایک واقف حال و ماضی دوست کی زبانی :- “یار تمہارا المیہ بھی عجیب ہے۔ داڑھی بڑھا لو تو سکھ لگتے ہو داڑھی کٹوا لو تو “سک” لگتے ہو”۔ میڈیکل کالج میں پہلے سال کے طالب علم تھےکہ آبائی شہر کا ایک زمیندار ملا، بڑے فخر سے اسے بتایا :-” میں بھی نشرل ہسپتال ہی ہوتا ہوں”۔ جواب ملا:- “جیسی آپ کی حالت ہے آپ کو ہسپتال ہی ہونا چاہیے۔ اللہ تعالی جلد شفا دے”۔ڈاکٹر بننا نہیں چاہتے تھے، لیکن والد کی خواہش کے آگے سر تسلیم خم کر دیا۔ اپنا خواب بھی پورا کیا۔ میڈیکل کی ڈگری تو لے لی لیکن امتحان دیا اور سول سرونٹ بن گئے۔ سول سرونٹ بنتے ہی میڈیکل کے شعبے سے پیار ہو گیا۔ طالبہ بہت یاد آئی جس نے فریکچر کے مریض سے ہسڑی لی اور امر ہو گئی، الفاظ تک ہمارے افسر کے دل پہ نقش تھے : -“آپ کے پاؤں کے اوپر سے ٹرک گزر ا آپ باہر کھڑے تھے، کیوں کھڑے تھے؟ ۔ آپ کے والد کی پاؤں کے اوپر سے بھی کبھی ٹرک گزرا ؟ کسی بھائی بہن کے پاؤں سے کبھی ٹرک گزرا ؟” ہم جماعت یا د آیا جو موروثی بیمار یوں کی مثال دینے کے باوجود زندہ تھا کسی کی اولاد نہیں ہے تو گمان غالب ہے والد کی بھی اولاد نہیں ہو گی اور دادا کی بھی نہیں ہو گی۔
امتحان کے دنوں میں دباؤ کا شکار ہو جاتے ، بہکی بہکی باتیں کرنے لگتے ، ایک جوئنیر نے ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔ موصوف داخلہ لیتے ہی دل کے ہاتھوں مجبور ہو گئے ۔ ہم جماعت کی محبت میں ایسے گرفتار ہوئے کہ مجنوں ہو گئے۔ زبانی امتحان دےرہے تھے ۔ اک سوال پر کھڑے ہو گئے ، پوچھنے والے سے ہاتھ ملایا ، فرمایا:- ” آج آپ کا ، میرا علم برابر ہو گیا ۔ آپ کو بھی معلوم نہیں اور میں بھی لا علم ۔ وہ طالب علم بھی یاد آیا ، جسے زبانی امتحان میں تین بار فیل کردیا گیا ۔چوتھی دفعہ زبانی امتحان دیتے ہوئے طالب علم اڑا ، امتحان لینے والے کا گریبان پکڑا اور مطالبہ کیا :۔ پروفیسر صاحب آپ حلفاََ فقط اتنا بتا دیں جو سوال آپ نے مجھ سے پوچھتے ہیں، جب آپ طالب علم تھے تب آپ کو ان کا جواب آتا تھا ؟ دوران تعلیم ہمیشہ احساس رہا کہ وہ اچھے ڈاکٹر نہیں،اس شعبے سے انصاف نہیں کر سکیں گے ۔قسمت کی خوبی دیکھیے ، سول سرونٹ بن گئے، ڈاکٹرز کے انٹرویو لیتے ، عموماََ دل ہی دل میں شرمندہ ہوتے ۔ اک دن مگر شرمندگی کا ازالہ ہو گیا ، اپنا بول بالا ہو گیا ، اک امیدوار ان کے کسی سوال کا جواب نہ دے سکے ۔پینل کے کسی بھی ممبر کے کسی بھی سوال کا جواب نہ دے سکے، جب کہ سوالات بھی بنیادی نوعیت کے تھے ۔ ہمارے صاحب کھڑے ہوئے ، بٹوے میں موجود تمام رقم نکال دی ۔امیدوار کو پیش کی ، فرمایا : اگرچہ آپ نے مجھ سے دنیا کا کم علم ترین ڈاکٹر ہونے کا اعزاز چھین لیا ہے لیکن میرے مایوسی بھی دور کر دی ، میں مایوس ہو چکا تھا کوئی ڈاکٹر مجھ بھی کم علم ہو سکتا ہے آپ نے میرے مایوسی دور کر دی، ثابت کر دیا ، مایوسی کفر ہے ۔اللہ تعالی آپ کو سلامت رکھے “۔ افسر صاحب شعبہ اطفال کے پروفیسر کو کبھی نہ بھول سکے اور نہ ان کے الفاظ کو۔ پروفیسر صاحب ہمیشہ فرمایا کرتے :- “بیٹا ! تمہیں زندگی میں سب سے زیادہ شکر گزار اپنے آبائی علاقے کے ڈاکٹر صاحبان کا ہونا چاہیےان میں سےکوئی صاحب بھی تمہارے جتنے قابل ہوتے تو آپکی والدہ کو تیسرے بیٹے کی موت کا صدمہ بھی برداشت کرنا پڑتا” ۔طبعیت یاسیت پسند تھی،ڈپریشن کے مریض تھے ۔ سائیکیٹری کے شعبے کا انتخاب کیا کیونکہ کسی اچھے سائیکٹرسٹ کی فیس افورڈ نہیں کر سکتے تھے۔ اپنا علاج خود کرتے ، صدق دل سے ٹھیک ہونے کی کو شش کرتے ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ آج تک کسی کو معلوم نہیں سکا کہ وہ خوش ہیں یا ڈپرس۔ صورت ایسی تھی کہ جانتے تھے کہ جتنی بھی سنوار لو ، کتنی سنور جائے گی؟
سیرت بہتر کرنے کی کوشش کرتے ، سیرت النبی کا مطالعہ کرنا شروع کیا تو ذاتی سیرت بہتر ہونا شروع ہو گئی۔
عزیزہ کی بات یاد آئی:- “پیغمبر محمد ﷺکی شخصیت ایسی ہے کہ انسان کا تعلق کسی بھی رنگ نسل مذہب سے ہو
پیار کیے بغیر رہ ہی نہیں سکتا”۔ خاتون نے بتایا کہ اللہ کے نبیﷺ کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی تھی۔افسر کے والد صاحب کینسر پیشنٹ تھے۔والد کی وفات کے بعد ڈپریشن ہو گیا ۔والدہ کی وفات کے بعد بھی یہی حال ہوا ۔
سنت نبوی پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ رکھنےکی کوشش کرتے، رات کو تنہائی میں مصلے پر روتے۔ اللہ تعالیٰ سے اسوہ رسول ﷺ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق مانگتے ۔ دن بھر چہرے پر مسکراہٹ سجائے اپنا اپ سنبھالے رکھتے ۔ آئیے ہم سب اسوہ رسول ﷺ پر عمل پیرا ہونے کا عہد کریں، نجات اسی میں ہے ،فقط اسی میں ہے۔
مرا پیمبر عظیم تر ہے
کمالِ خلاق ذات اُس کی
جمالِ ہستی حیات اُس کی
بشر نہیں عظمتِ بشر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے
وہ شرحِ احکام حق تعالیٰ
وہ خود ہی قانون خود حوالہ
وہ خود ہی قرآن خود ہی قاری
وہ آپ مہتاب آپ ہالہ
وہ عکس بھی اور آئینہ بھی
وہ نقطہ بھی خط بھی دائرہ بھی
وہ خود نظارہ ہے خود نظر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے
شعور لایا کتاب لایا
وہ حشر تک کا نصاب لایا
دیا بھی کامل نظام اس نے
اور آپ ہی انقلاب لایا
وہ علم کی اور عمل کی حد بھی
ازل بھی اس کا ہے اور ابد بھی
وہ ہر زمانے کا راہبر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے
وہ آدم و نوح سے زیادہ
بلند ہمت بلند ارادہ
وہ زُہدِ عیسیٰ سے کوسوں آ گے
جو سب کی منزل وہ اس کا جادہ
ہر اک پیمبر نہاں ہے اس میں
ہجومِ پیغمبراں ہے اس میں
وہ جس طرف ہے خدا ادھر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے
بس ایک مشکیزہ اک چٹائی
ذرا سے جَو ایک چارپائی
بدن پہ کپڑے بھی واجبی سے
نہ خوش لباسی نہ خوش قبائی
یہی ہے کُل کائنات جس کی
گنی نہ جائيں صفات جس کی
وہی تو سلطانِ بحرو بر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے
جو اپنا دامن لہو میں بھر لے
مصیبتیں اپنی جان پر لے
جو تیغ زن سے لڑے نہتا
جو غالب آ کر بھی صلح کر لے
اسیر دشمن کی چاہ میں بھی
مخالفوں کی نگاہ میں بھی
امیں ہے صادق ہے معتبر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
جسے شاہِ شش جہات دیکھوں
اُسے غریبوں کے ساتھ دیکھوں
عنانِ کون و مکاں جو تھامے
خدائی پر بھی وہ ہاتھ دیکھوں
لگے جو مزدور شاہ ایسا
نذر نہ دَھن سربراہ ایسا
فلک نشیں کا زمیں پہ گھر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
وہ خلوتوں میں بھی صف بہ صف بھی
وہ اِس طرف بھی وہ اُس طرف بھی
محاذ و منبر ٹھکانے اس کے
وہ سربسجدہ بھی سربکف بھی
کہیں وہ موتی کہیں ستارہ
وہ جامعیت کا استعارہ
وہ صبحِ تہذیب کا گجر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے