تل ابیب/دبئی — اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی اتوار کی رات ایک نئے سنگین مرحلے میں داخل ہو گئی، جب دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر تازہ فضائی حملے کیے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صورتحال پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ تنازعہ “آسانی سے ختم” کیا جا سکتا ہے، لیکن ساتھ ہی تہران کو خبردار کیا کہ اگر امریکی مفادات پر حملہ ہوا تو ایران پر ایسی فوجی طاقت استعمال کی جائے گی “جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی”۔
اسرائیل کے متعدد رہائشی علاقوں پر ایرانی میزائلوں کی بارش سے کم از کم سات افراد، جن میں بچے بھی شامل ہیں، جان سے گئے، جبکہ 140 سے زائد زخمی ہوئے۔ ادھر ایرانی میڈیا کے مطابق، اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں تہران میں ایک 14 منزلہ عمارت کے منہدم ہونے سے 60 افراد ہلاک ہوئے جن میں 29 بچے تھے۔
ایران نے امریکی ثالثی میں ہونے والے جوہری مذاکرات کو منسوخ کر دیا ہے، جبکہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے دعویٰ کیا ہے کہ “ایران کو ابھی اصل حملے کا سامنا کرنا باقی ہے”۔ اسرائیلی حملوں میں ایران کی وزارت دفاع، تہران آئل ڈپو اور گیس فیلڈ “ساوتھ پارس” کو بھی نشانہ بنایا گیا، جس سے توانائی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔
ادھر یمن میں ایران کے اتحادی حوثیوں نے پہلی بار براہ راست اسرائیل پر بیلسٹک میزائل داغنے کا دعویٰ کیا ہے، جس سے خدشات پیدا ہو گئے ہیں کہ یہ تنازعہ خطے بھر میں پھیل سکتا ہے۔
آبنائے ہرمز کی بندش، ایران کی دھمکی اور اسرائیل کی طرف سے طویل جنگ کی تیاری نے مشرق وسطیٰ کو ایک وسیع جنگ کی دہلیز پر لا کھڑا کیا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ ایران اور اسرائیل کے درمیان ایک “ڈیل” کے خواہاں ہیں، لیکن اس کی تفصیلات واضح نہیں کی گئیں۔
بین الاقوامی برادری اس بگڑتی صورتحال کو تشویش سے دیکھ رہی ہے، کیونکہ خطے میں موجود امریکی اور اتحادی افواج بھی براہ راست خطرے میں آ چکی ہیں۔