ارشد محمود اعوان
اسرائیل کی آبادی محض 90 لاکھ جبکہ ایران کی آبادی 9 کروڑ سے زیادہ ہے۔ رقبے میں بھی ایران کئی گنا بڑا ملک ہے۔ لیکن اکیسویں صدی کی جنگیں صرف آبادی اور رقبے سے نہیں لڑی جاتیں، بلکہ انٹیلی جنس، ٹیکنالوجی، اتحاد اور پیش رفتی عسکری حکمتِ عملی سے جیتی جاتی ہیں۔ اسرائیل نے ان تمام شعبوں میں خود کو برتر ثابت کیا ہے۔ محدود رقبے اور آبادی کے باوجود اس نے ایک ایسی دفاعی مشینری تشکیل دی ہے جو خطے میں کسی بھی بڑے ملک کے لیے خطرہ بن سکتی ہے، اور ایران اس حقیقت کو بخوبی سمجھتا ہے۔
تازہ کشیدگی میں اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے تہران کی فضائی حدود پر “مکمل کنٹرول” حاصل کر لیا ہے۔ اسرائیل کے جدید امریکی ساختہ طیارےاور ، ایران کے پرانے روسی یا مقامی طور پر تیار شدہ طیاروں پر واضح برتری رکھتے ہیں۔ ایران کی فضائیہ، جو زیادہ تر 1970 اور 1980 کی دہائیوں کی ٹیکنالوجی پر مشتمل ہے، اسرائیل کی جدید گائیڈڈ بمباری، سائبر وارفیئر، اور ایڈوانس انٹیلی جنس کے سامنے مفلوج دکھائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک کی جھڑپوں میں ایران کی طرف سے فضائی مزاحمت نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔
اسرائیل کی سب سے بڑی طاقت امریکہ ہے، جو نہ صرف اسے جدید ترین ہتھیار فراہم کرتا ہے بلکہ اس کی فوجی حکمتِ عملی میں بھی براہ راست تعاون کرتا ہے۔ امریکہ اسرائیل کی سکیورٹی کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ اسے تحفظ کی ضمانت بھی دیتا ہے۔ یہ دفاعی اتحاد اسرائیل کو نہایت مضبوط بناتا ہے۔ اس کے برعکس ایران کے پاس ایسا کوئی تزویراتی دفاعی اتحاد موجود نہیں۔ چین اور روس اگرچہ ایران کے تجارتی پارٹنر ضرور ہیں، لیکن عسکری سطح پر وہ ایران کی کھلی حمایت سے گریز کرتے ہیں۔ اس خلا نے ایران کو جنگی میدان میں تنہا کر دیا ہے۔
عالمی سیاست میں ایران اس وقت شدید سفارتی تنہائی کا شکار ہے۔ امریکہ، یورپ اور خلیجی ریاستیں ایران سے دوری اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ایران کے اوپر لگنے والی اقتصادی پابندیاں اس کی دفاعی اور عسکری ترقی کو روک رہی ہیں۔ عالمی مالیاتی نظام سے کٹنے کی وجہ سے ایران جدید اسلحہ خریدنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ اسرائیل، جسے دنیا کی بڑی دفاعی صنعتوں تک رسائی حاصل ہے، جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ اپنی فوج کو لیس کر چکا ہے، جبکہ ایران دفاعی لحاظ سے کئی دہائیاں پیچھے نظر آتا ہے۔
ایران نے ماضی میں اپنی عسکری حکمتِ عملی کو براہ راست جنگ کے بجائے پراکسی گروپوں کے ذریعے نافذ کیا۔ حزب اللہ، حماس، حوثی باغی اور عراق و شام میں شیعہ ملیشیائیں ایران کے عسکری اثر کا مظہر تھیں۔ لیکن حالیہ برسوں میں ان تمام گروہوں کو یا تو شکست ہوئی ہے یا وہ پسپائی اختیار کر چکے ہیں۔ حماس کو غزہ میں شدید نقصان پہنچا، حزب اللہ لبنان میں دفاعی حالت میں ہے، اور عراق و شام میں ایرانی اثر کم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ناکامیاں ایران کو ایک بار پھر خود میدانِ جنگ میں اترنے پر مجبور کر رہی ہیں، لیکن وہاں بھی اسے اسرائیل کے جدید دفاعی نظام کے سامنے مشکلات کا سامنا ہے۔
جدید جنگیں صرف توپ و تفنگ سے نہیں بلکہ سائبر وار، میزائل ڈیفنس، سیٹ لائٹ انٹیلی جنس اور ڈرون ٹیکنالوجی سے لڑی جاتی ہیں۔ ایران ان تمام شعبوں میں پسماندہ ہے۔ اسرائیل کا آئرن ڈوم، ڈیوڈز سلنگ، اور جدید میزائل ڈیفنس سسٹمز اسے ناقابلِ تسخیر بنا دیتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ایران کے ہتھیار محدود رینج کے، کم درستگی کے حامل اور غیر مؤثر ہوتے ہیں۔ ایران اگرچہ بیلسٹک میزائل تیار کر چکا ہے، لیکن ان کی مؤثریت اور ہدف پر درستگی ہمیشہ سوالیہ نشان رہی ہے۔
ایران اس وقت صرف بیرونی دباؤ میں نہیں بلکہ اندرونی خلفشار کا بھی شکار ہے۔ معاشی بحران، مہنگائی، بے روزگاری اور سیاسی عدم استحکام ایرانی حکومت کے لیے چیلنج بن چکے ہیں۔ عوامی احتجاج، نظامِ حکومت سے ناراضگی، اور نوجوان نسل کی بداعتمادی ایرانی ریاست کی گرفت کو کمزور کر رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں ایک بڑے عسکری تنازع میں شامل ہونا ایران کے لیے نہایت خطرناک ہو سکتا ہے۔
اگر صورتِ حال جوں کی توں برقرار رہتی ہے تو ایران کو مستقبل میں مزید پیچیدگیوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ تکنیکی لحاظ سے پسماندگی، سفارتی سطح پر تنہائی، پراکسی نیٹ ورک کی کمزوری اور اندرونی خلفشار ایران کو ایک ایسی پوزیشن میں لے آئے ہیں جہاں وہ اسرائیل کے سامنے کمزور نظر آ رہا ہے۔ اسرائیل اپنی دفاعی اور جارحانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اس تنازع کو اپنے حق میں موڑنے میں کامیاب ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ تاہم، اگر ایران نے اپنی حکمتِ عملی میں بڑی تبدیلی نہ کی تو اس کی بقاء ایک بڑا سوال بن جائے گا۔
یہ تنازع صرف دو ممالک کے درمیان نہیں بلکہ جدید جنگی اصولوں، عالمی طاقتوں کے اتحاد، اور سفارتی اثرورسوخ کی جنگ ہے — اور اس وقت یہ تمام عوامل اسرائیل کے حق میں ہیں۔