اسرائیل کا حالیہ حملہ کوئی اچانک ردعمل نہیں تھا بلکہ برسوں کی انٹیلی جنس، منصوبہ بندی اور جدید ٹیکنالوجی کا نچوڑ تھا۔ جاسوسوں کے نیٹ ورک، مصنوعی ذہانت اور خفیہ ہتھیاروں کی مدد سے اسرائیل نے ایرانی سرزمین کے اندر گہرائی تک ایک بھرپور اور درست حملہ کیا، جس کا نشانہ جوہری تنصیبات، فضائی دفاع اور اعلیٰ فوجی حکام تھے۔ ’’آپریشن رائزنگ لائن‘‘ صرف ایک فوجی کامیابی نہیں بلکہ خفیہ جنگ کے نئے اور خطرناک دور کا آغاز ہے۔
یہ اداریہ اسرائیلی کارروائی کی مہارت کا اعتراف ضرور کرتا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ خبردار بھی کرتا ہے کہ اس طرح کی کارروائیاں خطے کے عدم استحکام کو مزید بڑھا سکتی ہیں۔ اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایران کی فوجی صلاحیت اور جوہری پیش رفت کو شدید نقصان پہنچایا ہے، مگر اس حملے کے سفارتی اور جغرافیائی اثرات بہت دور تک جائیں گے۔
مصنوعی ذہانت کے ذریعے اہداف کا تعین، موساد کے ایجنٹوں کا ایرانی سرحد کے اندر مسلح ڈرون پہنچانا، اور مذاکرات کے دوران ایران کو بے خبری میں پکڑنا، یہ سب اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ روایتی جنگ کی حدود ختم ہو رہی ہیں۔ ایران کے اہم جنرلز اور سائنس دانوں کی ہلاکت سے ملک کی دفاعی قیادت کو کاری ضرب لگی ہے۔
تاہم، اس حملے کے نتائج صرف فوری نہیں بلکہ دیرپا ہوں گے۔ اسرائیل کی جارحانہ حکمت عملی خطے کو مکمل جنگ کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ ایران نے بدلہ لینے کا اعلان کر دیا ہے اور خطے کے دیگر ممالک بھی اس کشمکش کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔
یہ صرف ایک فوجی کارروائی نہیں، بلکہ عالمی امن کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ خفیہ جنگ کا آغاز اب کھلی آنکھوں کے سامنے ہو چکا ہے۔ جب انٹیلی جنس اور جنگ کے درمیان فرق مٹنے لگے تو دنیا کے رہنماؤں کو تشویش ہونی چاہیے۔ اسرائیل نے حملہ ضرور کیا ہے، مگر سب سے بڑا نقصان امن کا ہوا ہے۔