پاکستان میں ہائبرڈ نہیں، مکمل طاقت کا نظام

[post-views]
[post-views]

ایمان علی چیمہ

پاکستان میں آج جو سیاسی نظام رائج ہے، اسے “ہائیبرڈ نظام” کہنے کی بھی گنجائش باقی نہیں رہی۔ ہائیبرڈ نظام وہ ہوتا ہے جو کم از کم کسی حد تک سول قیادت، جمہوری عمل اور عوامی منڈیٹ کا تاثر قائم رکھتا ہے۔ تاہم، پاکستان میں جو کچھ جاری ہے، وہ اس تاثر سے بھی محروم ہو چکا ہے۔ نہ یہ مکمل سول حکومت ہے، نہ ہی فوجی آمریت — بلکہ ایک ایسا نظام ہے جو صرف طاقت، مصلحت اور انجینئرڈ سیاست پر مبنی ہے، جس میں عوام کی آواز کہیں سنائی نہیں دیتی۔

یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان کا آئینی ڈھانچہ وفاقی، پارلیمانی اور جمہوری ہے۔ لیکن اصل اختیار، فیصلے اور طاقت کے مراکز ان عوامی اداروں کے باہر واقع ہیں، جنہیں آئین میں بنیادی حیثیت دی گئی ہے۔ پارلیمنٹ، جو نظریاتی طور پر قانون سازی اور عوامی نمائندگی کا سب سے بڑا ادارہ ہے، عملی طور پر غیر مؤثر ہو چکی ہے۔ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں، اور پارلیمان صرف ان کی توثیق کا ایک رسمی ادارہ بن کر رہ گئی ہے۔

جب بھی انتخابات کا اعلان ہوتا ہے، ایک خاص بیانیہ، ایک مخصوص پارٹی یا رہنما کو آگے لانے کی حکمت عملی تیار کی جاتی ہے۔ انتخابات سے قبل کی صف بندیاں، نتائج کی پیشگی جھلکیاں، اور بعد از انتخاب اتحادی جبر، سب اسی انجینئرڈ جمہوریت کے شواہد ہیں۔ عوام کی رائے، ووٹ اور ترجیح کو ایک ایسے نظام میں ضم کر دیا جاتا ہے جہاں اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ اس عمل میں نہ صرف عوامی منڈیٹ پامال ہوتا ہے بلکہ جمہوریت کی روح بھی مسخ ہو جاتی ہے۔

سول حکومت، جو اس نظام کا نام نہاد چہرہ ہے، خود عوامی طاقت اور خودمختاری سے محروم ہو چکی ہے۔ بیوروکریسی، عدلیہ، اور سی کیورٹی اسٹیب کے درمیان ایک غیر اعلانیہ توازن قائم کیا گیا ہے، جس میں سول نمائندے صرف نمائشی حیثیت رکھتے ہیں۔ وزراء کے فیصلے، مشورے یا منصوبے اگر “منظوری” کے تابع ہوں، تو ایسی حکومت خودمختار نہیں بلکہ کٹھ پتلی ہوتی ہے۔ یہی صورت حال پاکستان میں برسوں سے جاری ہے۔

یہ نظام “ہائیبرڈ” نہیں، بلکہ “ڈیکوائی سسٹم” ہے — ایک ایسا فریب جس میں جمہوریت کا صرف پردہ باقی رہ گیا ہے، جبکہ باطن میں طاقت کا بے رحم کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ یہ نظام جمہوری تسلسل کو برقرار رکھنے کے بجائے، اسے زنجیروں میں جکڑنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ آئینی اداروں کی بے توقیری، صحافت پر قدغن، اور اظہارِ رائے پر پابندیاں، سب اس نظام کے فاش مظاہر ہیں۔

اس نظام کی ایک بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ عوام کو اس کا فریق نہیں سمجھا جاتا۔ عوام صرف ووٹ دینے یا نعرے لگانے تک محدود ہو چکے ہیں، جبکہ ریاستی فیصلے اُن سے بالا بالا ہو رہے ہیں۔ پالیسی سازی، اقتصادی فیصلے، خارجہ حکمت عملیاں — سب ایسے مراکز سےابھرتی ہیں جو نہ منتخب ہیں، نہ جواب دہ۔ عوامی مشاورت، مقامی حکومتیں، اور شفاف ادارہ جاتی عمل کا اس نظام میں کوئی تصور باقی نہیں رہا۔

یہ نظام نہ صرف عوام سے کٹا ہوا ہے بلکہ خود اپنے اندر بھی غیر مستحکم ہے۔ کوئی بھی پائیدار سیاسی نظام اس وقت تک برقرار نہیں رہ سکتا جب تک اس میں شفافیت، جواب دہی اور عوامی شراکت موجود نہ ہو۔ پاکستان میں جس نظام کو نافذ کیا گیا ہے، وہ ان تمام اصولوں سے انحراف کر رہا ہے۔در نتیجه، نہ معیشت مستحکم ہو پا رہی ہے، نہ قانون کی بالادستی قائم ہو رہی ہے، اور نہ ہی عوام کو اعتماد حاصل ہو رہا ہے۔

ریاستی اداروں کی بے توقیری اور سیاسی جماعتوں کی بے اختیاری ایک خطرناک خلا کو جنم دے رہی ہے — ایسا خلا جسے انتہاپسندی، بے یقینی اور عوامی اضطراب سے پُر کیا جا رہا ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں نوجوانوں کو روزگار نہیں، تعلیم کا معیار گر رہا ہے، اور بنیادی انسانی حقوق سلب کیے جا رہے ہیں، وہاں اگر جمہوریت بھی فقط دکھاوا رہ جائے تو پھر عوام کی امیدیں مکمل طور پر مایوسی میں بدلنے لگتی ہیں۔

حل اس بات میں نہیں کہ محض ایک “جمہوری چہرہ” پیش کر دیا جائے، یا انتخابات کے ذریعے ایک نئے چہرے کو مسندِ اقتدار پر بٹھا دیا جائے۔ اصل حل یہ ہے کہ ریاستی ڈھانچے کو آئین کے مطابق بحال کیا جائے، اداروں کو ان کی حدود میں رکھا جائے، اور عوام کو فیصلہ سازی میں شریک کیا جائے۔ طاقت کے اصل مراکز کو عوام کے سامنے جواب دہ بنانا ہوگا، وگرنہ یہ نظام صرف بند گلی کی طرف جائے گا۔

پاکستان کو ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے، جو عوام، ریاست اور اداروں کے درمیان توازن قائم کرے۔ جمہوریت کا صرف ظاہری ڈھانچہ نہیں، بلکہ اس کی روح — یعنی عوامی منڈیٹ، ادارہ جاتی شفافیت، اور آئینی بالادستی — بحال کی جائے۔ بصورت دیگر، یہ نظام ہائبرڈ نہیں، بلکہ ایک خاموش آمریت ہے جو عوام کے شعور، حقِ رائے دہی اور قومی وقار کو دیمک کی طرح چاٹتی رہے گی۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos