امریکہ اور اسرائیل کی حمایت یافتہ جارحیت کے خلاف ایران کی علامتی فتح کیسے ممکن ہوئی

[post-views]
[post-views]

ایران پر جب اسرائیل نے حملہ کیا اور امریکہ نے اس کی بھرپور پشت پناہی کی، تو دنیا بھر کے تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ ایران اس دباؤ کو برداشت نہیں کر سکے گا۔ لیکن توقعات کے برعکس، ایران نہ صرف اس جارحیت کے سامنے ڈٹا رہا بلکہ اپنی حکمت عملی سے عالمی بیانیہ بھی بدل دیا۔ اگرچہ یہ جنگ عسکری لحاظ سے محدود رہی، لیکن ایران نے ایک مضبوط علامتی فتح حاصل کی جو اسے اخلاقی اور سفارتی محاذ پر برتری دلاتی ہے۔

ایرانی جوہری تنصیبات اور عسکری انفراسٹرکچر پر حملوں کا مقصد ایران کی دفاعی طاقت کو ختم کرنا اور اس کی علاقائی حیثیت کو کمزور کرنا تھا، لیکن ایران نے فوری اور سوچا سمجھا ردعمل دیا۔ اس نے اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنایا اور قطر میں واقع امریکی اڈے پر بھی حملہ کیا۔ یہ محض جوابی کارروائی نہیں تھی بلکہ ایک پیغام تھا: ایران کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کی صلاحیت اور حوصلہ رکھتا ہے۔ ایران نے نہ صرف طاقت کا مظاہرہ کیا بلکہ اشتعال انگیزی سے بچتے ہوئے ایک سمجھدار سفارتی رخ اختیار کیا۔

اس تنازع کا سب سے حیران کن پہلو ایران کے اندر قومی یکجہتی کا ابھار تھا۔ حالیہ برسوں میں ایران کو اندرونی سیاسی کشمکش، عوامی بے چینی اور نسلی و عرقی تقسیم کا سامنا رہا ہے۔ مغربی طاقتیں سمجھتی تھیں کہ بیرونی حملہ ایران کو اندر سے توڑ دے گا، لیکن اس کے برعکس، ایرانی عوام نے اپنی نظریاتی و سیاسی اختلافات کو پیچھے چھوڑ کر ملک اور اس کے دفاع کے لیے اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ اس غیر متوقع یکجہتی نے ایرانی حکومت کو نہ صرف اندرونی حمایت فراہم کی بلکہ بیرونی دنیا کو بھی واضح پیغام دیا کہ ایران ایک متحد قوم ہے۔

Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.

ایران کی یہ علامتی فتح اس کی قدیم تہذیبی شناخت سے بھی جڑی ہے۔ ایران محض ایک جدید ریاست نہیں بلکہ ایک ہزاروں سال پرانی تہذیب ہے، جس کا قومی شعور گہرا اور پختہ ہے۔ حالیہ حملوں کو ایرانی عوام نے اپنی خودمختاری اور شناخت پر حملہ سمجھا، اور اسی احساس نے انہیں حکومت کے ساتھ کھڑا کر دیا۔ ایرانی قیادت نے اس تاریخی ورثے کو قومی بیانیے میں شامل کر کے خود کو محض ایک ریاست نہیں بلکہ ایک تہذیب کا محافظ ظاہر کیا، جس نے دنیا میں ایران کی اخلاقی برتری کو مزید مضبوط کیا۔

امریکہ اور اسرائیل کے اصل مقاصد—ایرانی حکومت کو کمزور کرنا، اس کی جوہری صلاحیتوں کو محدود کرنا، اور خطے میں اسے تنہا کرنا—پورے نہیں ہو سکے۔ نہ ایرانی قیادت ختم ہوئی، نہ جوہری ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ ہوا، اور نہ ہی ایران کی علاقائی حیثیت کو کم کیا جا سکا۔ اس کے برعکس، ایران نے نہ صرف اپنا دفاع کیا بلکہ عالمی برادری میں اپنے بیانیے کو کامیابی سے پیش کیا۔ یہ حملے، جو طاقت کا مظاہرہ تھے، اب ایک حکمت عملی کی ناکامی کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔

عالمی سطح پر بھی ان حملوں کے قانونی اور اخلاقی پہلوؤں پر سوالات اٹھائے گئے۔ اقوام متحدہ کی اجازت کے بغیر کسی خودمختار ملک پر حملہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ ایران نے اپنے ردعمل کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت دفاعی کارروائی قرار دیا، جسے بہت سے عالمی مبصرین نے جائز سمجھا۔ ایران نے خود کو ایک مظلوم ریاست کے طور پر پیش کیا، جو خودمختاری کی حفاظت میں مصروف ہے، اور یہ مؤقف کئی ملکوں میں ہمدردی کا باعث بنا۔

آج کی دنیا میں صرف عسکری طاقت ہی فیصلہ کن نہیں ہوتی، بلکہ بیانیہ، قانونی جواز، اور اخلاقی حیثیت بھی بہت اہم ہوتی ہے۔ ایران نے صرف میزائلوں سے نہیں بلکہ مضبوط پیغام اور سفارتی چالاکی سے بھی اپنے موقف کو دنیا کے سامنے رکھا۔ اس نے خود کو ایک ایسی ریاست کے طور پر پیش کیا جو طاقت کے سامنے جھکتی نہیں بلکہ اپنی خودمختاری کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہے۔

اگرچہ ایران کو عسکری نقصان ضرور پہنچا، لیکن وہ سیاسی اور سفارتی سطح پر مضبوط ہو کر ابھرا ہے۔ اس نے نہ صرف اپنی قومی شناخت کا دفاع کیا بلکہ دشمنوں کی پالیسیوں کو بے نقاب بھی کیا۔ یہ جنگ یہ ثابت کرتی ہے کہ حکمت، اتحاد اور مؤثر بیانیہ بعض اوقات گولی اور بارود سے بھی زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔ ایران کی حالیہ مزاحمت نے اسے نہ صرف داخلی سطح پر بلکہ عالمی منظرنامے پر بھی ایک مضبوط اور باوقار ریاست کے طور پر پیش کیا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos