امریکہ میں نیویارک سٹی کے میئرشپ کے امیدوار زوہران مامدانی کی سیاسی کامیابی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب مغربی دنیا خصوصاً امریکہ میں اسلاموفوبیا ایک منظم اور جارحانہ رجحان اختیار کر چکا ہے۔ زوہران مامدانی، جو بھارتی نژاد مسلمان اور تارک وطن ہیں، اپنی عوام دوست مہم اور فلسطینی حقوق کی حمایت کے باعث نہ صرف نیویارک کے شہریوں میں مقبول ہوئے، بلکہ اُن کی کامیابی نے اُن عناصر کو بھی بے نقاب کر دیا ہے جو مذہبی، نسلی اور نظریاتی تعصب کی بنیاد پر نفرت پھیلانے میں مصروف ہیں۔
زوہران مامدانی کی میئرشپ کے لیے ڈیموکریٹ پارٹی کی نامزدگی نے انتہا پسندوں، دائیں بازو کے نظریہ سازوں اور یہاں تک کہ ان کے اپنی پارٹی کے چند ارکان کو بھی مشتعل کر دیا ہے۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں “سو فیصد کمیونسٹ پاگل” قرار دیا، جب کہ سازشی نظریات پھیلانے والی معروف شخصیت لورا لوومر نے یہاں تک کہہ دیا کہ ان کی جیت “نیویارک میں ایک اور 9/11” کا سبب بنے گی۔ ڈیموکریٹ رہنما لورا گلن نے ان کی مہم کو “جھوٹ، فریب اور نفرت” پر مبنی قرار دیا۔ سوشل میڈیا پر بھی ان کے خلاف ایک منظم مہم شروع کی گئی، جہاں انہیں “مسلمان جہادی” کہا گیا اور آزادی کی علامت “اسٹیچو آف لبرٹی” کو برقعہ پہنے دکھانے والی تصاویر وائرل کی گئیں۔
مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ زوہران مامدانی کو کئی بار موت کی دھمکیاں بھی دی گئیں، جن کی تحقیقات نیویارک پولیس کر رہی ہے۔ یہ سب کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے جو دنیا بھر میں آزادی، رواداری اور انسانی حقوق کے بلند بانگ دعوے کرتا ہے۔ زوہران مامدانی کے خلاف یہ مہم صرف ایک فرد پر نہیں بلکہ پوری مسلم کمیونٹی اور اقلیتوں کے سیاسی کردار پر حملہ ہے۔
زوہران مامدانی کی سب سے بڑی “غلطی” یہ ہے کہ وہ فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں، صیہونیت پر تنقید کرتے ہیں، اور اس کے باوجود یہ واضح کرتے ہیں کہ صیہونی پالیسیوں پر تنقید کو یہود دشمنی سے الگ سمجھا جانا چاہیے۔ تاہم، امریکہ جیسے ملک میں، جہاں اسرائیل کی حمایت کو حب الوطنی کی علامت سمجھا جاتا ہے، ایسی رائے رکھنا ناقابلِ معافی جرم بن جاتا ہے، خاص طور پر اگر آپ ایک مسلمان ہوں۔
Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.
یہ صورتحال صرف دائیں بازو تک محدود نہیں۔ افسوسناک طور پر، لبرل اور ڈیموکریٹ حلقے بھی یا تو خاموش ہیں یا اس نفرت انگیز مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔ یہ دوہرا معیار امریکہ کی سیاسی اخلاقیات پر ایک سنجیدہ سوالیہ نشان ہے۔ اگر ایک سیاسی جماعت اقلیتوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہے، تو پھر اُسے اپنے ان نمائندوں کا بھی دفاع کرنا چاہیے جو ظالمانہ بیانیے کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں۔
زوہران مامدانی کی صورت حال ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ امریکہ جیسے ملک میں بھی آزادی اظہار، مذہبی آزادی اور سیاسی شمولیت صرف نعروں تک محدود ہو چکی ہے۔ جب ایک مسلمان، وہ بھی تارک وطن پس منظر کا حامل، عوامی نمائندگی حاصل کرتا ہے، تو اُسے حب الوطنی کے امتحان میں ڈال دیا جاتا ہے۔
امریکہ کو اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا وہ واقعی ایک آزاد، روادار اور جمہوری ملک بننا چاہتا ہے یا وہ نفرت، خوف اور تعصب پر مبنی نظام کا قیدی بن چکا ہے۔ اگر زوہران مامدانی جیسے رہنما کو صرف اُس کے مذہب اور نظریات کی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا ہے، تو یہ صرف انفرادی مسئلہ نہیں بلکہ پورے جمہوری نظام کی ناکامی ہے۔
یہ وقت ہے کہ امریکہ اپنے سیاسی و سماجی نظام میں جھانکے، تعصب کو بے نقاب کرے اور اقلیتوں کے لیے حقیقی مساوات اور تحفظ کو یقینی بنائے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب آزادی کا دعویدار یہ معاشرہ عدم برداشت، تعصب اور نفرت کا گڑھ بن جائے گا۔