‏شاہ محمود قریشی اور حقیقی آزادی کی تحریک

[post-views]
[post-views]

بیرسٹر امتیاز ملک

عمران خان اور تحریک انصاف کی سیاسی جد وجہد کو تیس اکتوبر، 2011 کے جلسے سے عروج حاصل ہوا ۔ جس کے بعد سے قابل انتخاب نے تحریک انصاف کو سنجیدگی سے سیاسی آپشن کے طور پر لینا شروع کر دیا۔

شاہ محمود قریشی نے جب پیپلز پارٹی کی حکومت سے استعفا دیا تو وہ مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے ملے، تاہم آخر میں انہوں نے تحریک انصاف کو بطور وائس چیئرمین اپنا لیا۔ شاہ محمود کی تحریک انصاف میں پوزیشن اسی معاہدے کا حصہ ہے۔

تحریک انصاف کے اندرونی انتخابات میں کبھی بھی انکے مقابلے میں کوئی امیدوار سامنے نہیں آیا ہے، اس لیے وہ تحریک انصاف کے بارہ سال سے وائس چیئرمین ہیں۔ حقیقت میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی ہی تحریک انصاف کے دو ایسے راہنما ہیں جو کہ بدستور چیئرمین اور وائس چیئرمین ہیں۔

Don’t forget to Subscribe our channel & Press Bell Icon.

شاہ محمود قریشی ایک ایماندار اور زیرک سیاستدان ہیں۔ ان پر کرپشن کے کبھی بھی الزامات نہیں لگے ہیں۔ وہ ہمیشہ سے ناپ تول کر بات کرتے ہیں اور سیاست میں بھی ڈپلومیسی کے قائل ہیں۔ وہ ایک پیر گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور روایتی و خاندانی سیاست کے علمبردار ہیں۔

ان کی تحریک انصاف کے لیے خدمات بھی ہیں۔ اسکے باوجود بھی شاہ محمود قریشی تحریک انصاف کے سپورٹرز کے ہاں کبھی بھی مقبول نہیں رہے ہیں، جسکی بنیادی وجہ انکی سٹیٹس کو سیاست ہے۔ ناقدین کے ہاں وہ مزاحمت اور سول حکمرانی کے لیڈر ہی نہیں ہیں۔ تحریک انصاف کے سپورٹرز جماعت کے اندر ہر ابھرتے ہوئے یا مضبوط لیڈر کو صرف عمران خان کی شخصیت سے موازنہ کر کے ہی دیکھتے ہیں، جو عمران خان سے جتنا مماثلت رکھے گا، تحریک انصاف کے ہاں اتنا ہی مقبول ہو گا۔

شاہ محمود قریشی کی ملتان میں بھی سیاست کمزور ہوئی ہے۔ ملتان میں گیلانی اور قریشی خاندان کی سیاسی تاریخ رہی ہے۔ وقت کے ساتھ گیلانی خاندان سیاسی طور پر مقبول ہوا ہے جبکہ قریشی خاندان کمزور ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

اسکی بنیادی وجہ گیلانی خاندان کے امیدواران کی عام عوام تک براہ راست رسائی ہے جبکہ قریشی خاندان عوام سے فاصلے پر رہتے ہیں۔ مزید برآں شاہ محمود قریشی کی فتوحات بنیادی طور پر تحریک انصاف کی مقبولیت کے باعث ممکن ہوئی ہیں۔

حالیہ ضمنی الیکشن جو کہ ملتان کے حلقے میں قریشی اور گیلانی خاندان کے درمیان ہوا تھا، وہاں پر تحریک انصاف کے سپورٹرز نے خاندانی اور موروثی سیاست کی وجہ سے قریشی خاندان کا زیادہ ساتھ نہیں دیا تھا۔ جسکی وجہ سے علی موسیٰ گیلانی وہ الیکشن جیت گئے تھے ۔ تاہم ناقدین کے مطابق گیلانی خاندان کی فتح میں عبدالغفار ڈوگر کا بھی اہم کردار تھا۔

تحریک انصاف کے سپورٹرز کے ہاں شاہ محمود قریشی پر روایتی اور خاندانی سیاست کا الزام لگایا جاتا ہے۔ وہ اپنے بیٹے ، بیٹی اور دوسرے رشتہ داروں کو تحریک انصاف کے ٹکٹس پر الیکشن لڑواتے رہے ہیں۔ اسکے علاؤہ تحریک انصاف کے نظریاتی ووٹرز شاہ محمود قریشی کو تحریک انصاف کی مڈل کلاس، غیر موروثی اور مزاحمتی خصوصیات سے منسلک راہنما نہیں دیکھتے ہیں۔ لہذا وہ شاہ محمود قریشی کی سیاست کو عمران خان کی سیاست کا وارث یا امین نہیں سمجھتے ہیں۔ تحریک انصاف کے سپورٹرز میں یہ خدشہ بھی پایا جاتا ہے کہ شاہ محمود قریشی تحریک انصاف کو عمران خان کے نظریہ کی بجائے روایتی سیاست کے طور پر چلائیں گے۔

اس لیے انکی یہ خواہش ہے کہ تحریک انصاف کے پارٹی لیڈران میں عمران خان جیسی خصوصیات ہوں تا کہ تحریک انصاف تبدیلی، مڈل کلاس اور مزاحمتی سیاست جاری رکھ سکے۔

حیران کن طور پر ریپبلک پالیسی کے حلقہ جاتی سرویز میں شاہ محمود قریشی تحریک انصاف کے سپورٹرز کے ہاں مقبول لیڈر نہیں ہیں۔ موجودہ تناظر میں جب کہ تحریک انصاف کو متاثر کن اور مزاحمتی لیڈرشپ کی ضرورت ہے، تحریک انصاف کے سپورٹرز شاہ محمود میں یہ صلاحیتیں نہیں دیکھتے۔ اب جبکہ یہ قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ مائنس ون فارمولا کے تحت عمران خان کو نااہل کر کے پابند سلاسل کر دیا جائے گا تو سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف آنے والے انتخابات کس پارٹی سربراہ کے تحت لڑے گی؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا شاہ محمود قریشی عمران خان کی مزاحمتی اور نظریاتی تحریک کو آگے چلا پائیں گے؟

تحریک انصاف کے سپورٹرز کے ہاں شاہ محمود قریشی مزاحمتی کردار ہی نہیں ہیں، ان کے نزدیک عمران خان کی غیر موجودگی میں ایسا لیڈر یا لیڈران کی کابینہ تشکیل دی جائے جو کہ نہ صرف تحریک انصاف کی حقیقی آزادی کی تحریک کو آگے بڑھائے بلکہ عمران خان کی فلاح و بہبود کے لیے بھی ہر حد تک جانے کے لیے تیار رہے۔

تحریک انصاف کے سپورٹرز کے ہاں صرف عمران خان ہی تحریک انصاف ہیں۔ شاہ محمود قریشی کے لیے تحریک انصاف کے باہر اور اندر بنیادی چیلنجز موجود ہیں اور دیکھنا یہ ہو گا کہ وہ ان چیلنجز سے کیسے نبرد آزما ہوتے ہیں؟ کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے جماعت کی تنظیم سازی انتہائی ضروری ہے ۔

تنظیم سازی کا بنیادی اصول یہ ہے اسکو پارٹی کے نظریے کے مطابق ادا کیا جائے ۔ جہاں تحریک انصاف نظریاتی طور پر ارتقائی مراحل طے کرتی ہوئی حقیقی آزادی کی تحریک کی جانب جھکاؤ رکھنا شروع ہوئی ہے تو پارٹی کے عہدیداران کا بھی حقیقی آزادی کے نظریے سے مطابقت رکھنا ضروری ہے۔ تحریک انصاف حقیقی آزادی کو عوامی حاکمیت اور قانون کی حکمرانی سے تشبیہ دیتی ہے اور اسکے حصول کے لیے اپنے ووٹرز اور سپورٹرز کو آمادہ کر رہی ہے۔

پاکستان کے تناظر میں سویلین بالادستی کو بہت سے چیلنجز درکار ہیں، اس لیے نظریاتی طور پر مضبوط لیڈر شپ کا سیاسی جماعتوں میں آگے آنا سیاسی جماعتوں کے نظریے کے لیے اہم ہیں۔

ایسے ہی کچھ سخت فیصلے تحریک انصاف کو کرنا ہونگے کہ انکی سیاسی قیادت کیسے قائدین پر مشتمل ہو گی۔ آخر میں سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت ہونا ضروری ہے۔

رپبلک پالیسی کا ماہ جون کا میگزین پڑھنے کیلئے کلک کریں۔

جہاں سیاسی ورکرز کی سیاسی تربیت ضروری ہے وہاں پر جماعتی عہدیداران کا جماعتی انتخابات بھی ضروری ہے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین اس وقت تک بہتر پرفارم نہیں کر سکتے جب تک انکو اپنی سیاسی جماعت کے کارکنوں اور ہمدردوں کی واضح حمایت حاصل نہ ہو۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos