
تحریر: ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی
کالم نگار نشترمیڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کاحصہ ہیں۔
حسینہ اورنگینہ دوبہنیں تھیں جوایک بھٹہ مزدورکے گھر پیداہوئی تھیں۔زندگی اُن کے والد کاپسینہ نکال چکی تھی۔رزق کے دفینے کی تلاش میں وہ ہروقت پسینے سے شرابوررہتے تھے۔ مجیدامجدؔ نے کہا تھافضائے زندگی کی آندھیوں سے ہرایک کو بچشم تر گزرنا پڑتاہے۔ بھٹہ مزدور کا مگر پُورا جسم تر رہتاہے۔ ایک شاعر نے بجا کہا تھا کہ جسم و جاں خالقِ کائنات کی عطا ہے مگر اس جہان میں جینے کیلئے انسان کو اپنا ہنر بھی آزماناپڑتا ہے۔کچھ لوگوں کی زندگی غبارِراہ کی طرح ہوتی ہے۔ ہرقدم پر ٹھوکروں کاتسلسل جاری رہتاہے۔ ہم سب کا مقصددو سانس جینا ہے مگرقادروعادل کے اس جہان میں بندہِ مزدور کے اوقات ہمیشہ تلخ رہے ہیں۔ نگینہ اورحسینہ کا مزدورباپ بھی بھٹہ مزدوری کرتے کرتے ایک دن خالق حقیقی کو جاملا۔
باپ کیا مرا، لوگوں نے حسینہ اور نگینہ کو ایساخزینہ سمجھ لیا جو سب کی مشترکہ میراث تھا۔ ان کی ماں گونگی،بہری تھی اورکردار کی بہت سنہری تھی۔ ایک مدت سے زمانے کو جلن ٹھہری تھی۔ غریب عورت کیلئے بدکردار مرد ازل سے کمینہ تھا۔ بہری ماں کی نظر میں ہر دم مکہ مدینہ تھا۔ اس کے دامن میں دعاؤں کا خزینہ تھا۔ماں ان پڑھ، گونگی، بہری ضرور تھی مگر جاہل نہیں تھی۔ اسے جینے کا قرینہ تھا۔ وہ جانتی تھی کہ زندگی کا زہر اب انہوں نے اکیلا پینا تھا۔ اپنے زورِ بازو پر جینا تھا۔ جون کامہینہ تھا۔ دوپہر کاسمے تھا۔بھٹے کا منیجر بھڑوا نکلا۔ سچ مگراُس کیلئے بہت کڑوا نکلا۔ گونگی ماں نے اُس پر چانٹوں کی بارش کردی اور دور اُس کی خارش کردی۔
عورت ہوں مگر صورتِ کوہ سار کھڑی ہوں
اک سچ کے تحفظ کیلئے سب سے لڑی ہوں
نگینہ اورحسینہ اپنی گونگی ماں کی آواز بن گئیں۔تھوڑی دیر میں منیجرصاحب کے اندر کا شیطان بھاگ گیااور انسان جاگ گیا۔وہ معافیاں مانگنے لگا۔منیجرصاحب موقع پر روتے رہے اوربعد میں اپنے عمل کی سیاہی دھوتے رہے۔ سدا شرمندہ رہے کہ ایک کمزور لمحے میں ایک مجبور عورت ایک کڑیل مرد سے زیادہ طاقت ور ثابت ہوئی۔ مرد کو تو ایک خواہش نے شیطان بنا دیا۔ خاتون کی انسانیت کومگر بھوک اور افلاس بھی نہ چھین سکے۔
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.
ہمارا دین مرد کو نگاہ نیچی اور سربلند رکھنے کی تلقین کرتاہے۔ ہمارے اسلاف ایسے ہی تھے۔غیروں کی عزت کیلئے اپنی جان قربان کردیتے تھے۔ عجیب المیہ ہے کہ اب ہمیں صنفِ نازک کا لباس کاٹتا ہے۔ اپنی نظروں کی پیاس گراں نہیں گزرتی۔ ہمارے ہاں ماؤں، بیٹیوں کی عزت ہمیشہ سانجھی رہی ہے۔ بدترین دشمنی بھی لوگوں کو اس بات پر کبھی آمادہ نہیں کرسکی کہ وہ اپنے مخالف کی مستورات کے بارے میں کوئی گری ہوئی بات کرناتو درکنار سوچیں بھی۔ اُردو کا ایک پُرانا محاورہ واضح الفاظ میں کہتا ہے کہ خواتین کے بارے میں مسخری کرنے والے لوگ بہت نیچ ہوتے ہیں۔ ہمارے بزرگ شاید اس بات پر کبھی یقین نہ کرسکیں کہ اس دیس میں اب کم سن بچیوں کے ساتھ بھی زیادتی ہونے لگی ہے۔ یہاں تو جانی دشمن بھی ایک دوسرے کی بیٹیوں کے سر پر چادر اوڑاھنا اپنا بنیادی فرض سمجھتے تھے۔ چادر اُوڑاھنا اس بات کی علامت ہوتا تھا کہ اب وہ خاتون اس گھرانے کی فرد بھی ہے۔ کسی بیٹی کی آنکھ میں آنسو پورے معاشرے کوبے چین کردیتے تھے۔ اب تو لگتا ہے کہ ہماری اکثریت دوسروں کی آنکھ میں آنسو لانے کیلئے بے تاب ہے۔ خواتین کے معاملے میں نہ ہم اپنے مذہبی احکامات کی پاسداری کر رہے ہیں اورنہ ہی اپنی معاشرتی روایات کی پہرہ دار ی کررہے ہیں۔ الہامی کتاب میں خالق کائنات فرماتے ہیں ”آپ مومنوں سے کہہ دیں وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں،یہ ان کی پاکیزگی کیلئے زیادہ بہتر ہے،اور جو وہ کرتے ہیں اس سے اللہ تعالیٰ خوب با خبر ہے اور مومن عورتوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنی نگاہوں کو پست رکھیں اور نظروں کو نیچا رکھیں“۔
اللہ تعالیٰ نے مردوں کو اس بات کی تلقین کی ہے کہ وہ اپنی نظروں پرقابو رکھیں اورجبلی تقاضوں کوشرعی حدود میں رکھیں۔ ایک حدیث میں ہے ”اس آنکھ پر جہنم کی آگ حرام کر دی جائے گی جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے پست رہی“۔ اللہ تعالی کے محبوب پیغمبرﷺ کی حدیث ہے ”حیا اورایمان آپس میں اکٹھے ملے ہوئے ہیں اگر ان میں سے ایک اُٹھ جائے تودوسرا بھی اُٹھ جاتا ہے“۔ پیغمبر خداﷺ نے ایک اور جگہ فرمایا ”تم اپنی طرف سے مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دے دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں، جب بات کرو تو سچ بولو، اور جب تم وعدہ کرو تو اسے پورا کرو، اور جب تمہیں امانت دی جائے تو اسے ادا کرو،اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو اور اپنی نگاہوں کو نیچا رکھو اور اپنے ہاتھوں کو روک کر رکھو یعنی کسی کو تکلیف نہ پہنچاؤ“۔ ہمارے ایک شا عرنے کسی دور میں کہا تھا کہ دنیا کی عزت ماؤں بہنوں، بیٹیوں کے دم سے ہے۔ قوموں کی عزت کا دارومدار مستورات کے ساتھ سلوک پرہے۔ زندگی کی حلاوت خواتین کی بدولت ہے۔ گھروں میں برکت کی وجہ خواتین ہیں۔ نادار کی دولت اور عسرت میں عشرت کاسبب صنفِ نازک ہی ہے۔اب دن بدن ہمارا اخلاقی انحطاط بڑھتا جا رہا ہے۔ ہمیں یہ بات بھولتی جارہی ہے کہ جومعاشرہ عورت کی عزت نہیں کرتا دنیا اُس کی عزت نہیں کرتی۔ دھرتی کو ماں کہا جاتا ہے۔ جس دھرتی ماں میں ماں، بیٹی کو ہی احساس تحفظ نہ ہو، وہ دھرتی ماں خود کیسے محفوظ رہ سکتی ہے؟۔
کوئی بدن سے آگے دیکھے عورت کو
سب کی آنکھیں گروی ہیں اس نگری میں