بلوچستان کی عوام کا احتجاج

اسلام آباد میں تربت سے شروع ہونے والے لانگ مارچ کے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کے خلاف بلوچستان میں بڑے پیمانے پر احتجاج، ہڑتالیں، دھرنے اور ریلیاں صوبے بھر کے مظاہرین کے لیے یکجہتی کو ظاہر کرتی ہیں۔ ان مظاہروں میں طلباء، خواتین، بچوں، سیاسی کارکنوں اور سیاسی نمائندوں کی شرکت ان مارچ کرنے والوں کی حمایت کی نمائندگی کرتی ہے جنہیں حراست میں لیا گیا اور طاقت کے استعمال سے ان کے  لانگ مارچ کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ خضدار، وڈھ اور نال کے قصبوں میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتالیں گہرے شکایات کا اظہار کرتی ہیں۔ اگرچہ فی الحال یہ مطالبہ زیر حراست افراد کی رہائی کا ہے، لیکن ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں پر وسیع تر مطالبات اور خدشات اپنی جگہ برقرار ہیں۔

احتجاجی ریلیوں کی وجہ سے سڑکوں کی بندش اور بلوچستان کا پنجاب اور سندھ سے کچھ گھنٹوں تک مکمل رابطہ منقطع ہونا بلوچ عوام کے اجتماعی غم و غصے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ طاقت کا بے دریغ استعمال اور غیر منصفانہ نظربندیاں ایک سنگین مسئلہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں ۔ مظاہرین کو پرامن احتجاج کرنے کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ بلوچستان کے سیاسی رہنما بھی اس ساری صورتحال کی مذمت کے لیے آگے آئے ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل (بی این پی-ایم) کے صدر مظاہرین کے مطالبات کی حمایت کے لیے آگے آئے۔

جو لوگ ابھی تک گرفتار ہیں ان کی فوری رہائی صوبے میں ریلیاں کرنے والے لوگوں کا سب سے فوری مطالبہ ہے۔ ان مظاہروں سے بلوچ عوام کی شکایات اور غصہ عیاں ہے۔ کوئی بھی تیسرا مبصر صورت حال کا جائزہ لے سکتا ہے اور اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ آگے بڑھنے کا بہترین طریقہ بیٹھ کر بات کرنا ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کا سب سے متوازن طریقہ مذاکرات ہیں جو اب تقریباً ایک مہم میں تبدیل ہو چکا ہے جو بالاچ کے قتل کے بعد سے جاری ہے۔ سابق رکن بلوچستان اسمبلی ڈاکٹر شمع اسحاق نے بجا طور پر تشدد کا سہارا لینے کے بجائے مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کی اہمیت پر زور دیا۔

Watch details of the survey in the YouTube link and subscribe the channel for detailed political analysis

بلوچ لانگ مارچ کے شرکاء پر تشدد کےخلاف پوری قوم اُٹھ کھڑی ہو گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر بلوچوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی جارہی ہے۔ لانگ مارچ کے شرکاء پر تشدد کے خلاف پوری قوم سراپا احتجاج ہے۔ سینئر صحافی حامد میر لانگ مارچ کے شرکاء سے اظہار یکجہتی کے لیے دھرنے کے مقام پر پہنچے ۔ اسلام آباد پولیس نے اس معاملے پر اُن کے ساتھ بھی بدتمیزی کی۔ دوسری جانب مصنف محمدحنیف  نے بھی ایکس پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ میں پرُامن بلوچوں پر اسلام آباد پولیس کی جانب سے تشدد کے خلاف ستارہ امتیاز واپس کر رہا ہوں۔

ہمارے اداروں اور حکومتوں کو سیکھنا ہو گا کہ ہر مسئلے کا حل تشدد نہیں ہے۔ پُرامن مظاہرین پر تشدد آئین کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ اس معاملے پر ایک جوڈیشل کمیشن بنایا جانا چاہیے اور وہ حکومتی عہدیدار جو اس تشدد میں ملوث ہیں کو نہ صرف عہدوں سے ہٹایا جانا چاہیے بلکہ آئین کی توہین کرنے پر ان کو سزائیں دی جانی چاہییں۔  

اس مسئلے پرصوبے کے جائز اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت شروع کرنے اور ان کی شکایات سننے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کے خدشات کو خاموش کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنا اختلاف رائے سے نمٹنے کا ایک نامناسب طریقہ ہے۔ حکام کو اپنا نقطہ نظر بدلنا چاہیے اور جمہوریت کے حقیقی جوہر کو برقرار رکھنا چاہیے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos