آج سے چھ ہفتے بعد، پاکستان کے عوام اگلے پانچ سالوں کے لیے اپنے نمائندے منتخب کرنے کے لیے انتخابات میں جانے والے ہیں۔ انتخابات کا عمل فعال ہو گیا ہے لیکن انتخابات سے قبل گہما گہمی ابھی بھی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے۔
اس کے بجائے، ملک میں حالات، خاص طور پر سیاسی پولرائزیشن اور حقوق کی خلاف ورزیاں کے بارے میں مایوسی کا احساس ہے۔ یہ ریاستی اداروں اور مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورت حال کو منصفانہ انتخابات میں تبدیل کریں کیونکہ عوام کےانتخابی مشق پر عدم اعتماد سے پاکستان میں جمہوریت کے ارتقا کو ہی نقصان پہنچے گا۔
اس ساری صورت حال کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہےکہ بروقت انتخابات کے انعقاد میں بہت سی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، لوگوں کو ابھی تک یقین نہیں ہے کہ وہ واقعی 8 فروری کو ووٹ کاسٹ کریں گے۔ تاہم، سپریم کورٹ نے سختی سے کہا ہے کہ انتخابات میں مزید تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی۔
سیاسی جماعتوں کو اس خیال کو تقویت دینی چاہیے کہ وہ بروقت انتخابات کی حمایت کرتے ہیں، اور کسی بھی ممکنہ تاخیر کی مزاحمت کریں گے۔ پیپلز پارٹی کے علاوہ دیگر اہم پارٹیوں نے ابھی پوری قوت کے ساتھ انتخابی مہم نہیں چلائی ہے۔ زیادہ تر نےاپنی سرگرمیاں پریس کانفرنسوں تک ہی محدود کی ہیں، یا پھر اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف سوشل میڈیا پر ٹرینڈ شروع کیا ہے۔
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.
اب وقت آگیا ہے کہ بڑے پیمانے پر رابطہ مہم چلائی جائے، تاکہ ووٹر امیدواروں سے پہلی بار یہ سن سکیں کہ آخر الذکر لوگوں کے بے شمار مسائل کو کیسے حل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ووٹر جاننا چاہتے ہیں کہ کس طرح کمزور معیشت کو بحال کیا جائے گا اور ملازمتیں کیسے پیدا ہوں گی۔ قیمتیں کیسے نیچے آئیں گی؛ ان کی گلیوں اور محلوں کو کیسے محفوظ بنایا جائے گا؟ ریاست کا جہاز، جو پچھلے کئی سالوں سے پریشان کن پانیوں میں سفر کر رہا ہے، کس طرح پرسکون ساحلوں کی طرف لے جایا جائے گا۔ الیکشن کمیشن عوامی آگاہی مہم کے ذریعے ووٹروں کو انتخابی عمل کے بارے میں آگاہ کر کے بھی اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔
لیکن سب سے بڑھ کر، لوگوں کو اس بات پر یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ ان کے ووٹوں کو ایمانداری کے ساتھ شامل کیا جائے گا، اور یہ کہ انتخابات کے نتائج طاقتور ہاتھوں کے زیر انتظام نہیں ہوں گے۔ لوگوں کو اس بات پر صرف ریاست ہی قائل کر سکتی ہے۔
یہ تاثر کہ انتخابی جوڑ توڑ جاری ہے، پی ٹی آئی کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کی وجہ سے اسے تقویت ملی ہے، اسے دور ہونا چاہیے، اور تمام دعویداروں کو آزادانہ اور منصفانہ طور پر الیکشن لڑنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اگر ریاست ایسا کرنے میں ناکام رہی تو عوامی مایوسی اور بڑھے گی، جو کہ شاید قومی یکجہتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
جب لوگوں کو یہ احساس ہو کہ ان کے ووٹ کا ریاست کے معاملات میں کوئی لینا دینا نہیں ہے، اور یہ کہ انتخابی فیصلے پہلے ہی کہیں اور ہو چکے ہیں، تو اس سے جمہوریت کے ساتھ ساتھ قومی ہم آہنگی کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔