Premium Content

Add

“کرم، بھرم اورشرم”

Print Friendly, PDF & Email

تحریر:        ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی

مصنف نشترمیڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کاحصہ ہیں۔

اگرہمارا دوسروں کی نظر میں بھرم قائم ہے تو اس کامطلب ہے اللہ تعالیٰ کا ہم پرکرم ہے ورنہ ہم تمام انسان فطرتاً کمزور واقع ہوئے ہیں۔ بندے اگر ایک دوسرے کے دلوں کا حال جان لیں تو شاید ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگیں۔ اللہ تعالیٰ سب کا بھرم رکھنے والا ہے۔ پردہ پوش ہے۔ پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے ورنہ انسان تو نسیان کامارا ہوا اور خطا کا پتلا ہے۔ یوگی سادھو سمجھے جانے والے لوگ ایک عمر لوگوں کے محبوب رہتے ہیں مگر جب اللہ تعالیٰ اُن میں سے بعض کا پردہ چاک کرتے ہیں تو سارا بھرم ٹوٹ جاتا ہے اور آشرم کے اندرمدتوں قائم رہنے والے حرم بے نقاب ہوجاتے ہیں۔ فرشتے سمجھے جانے والے لوگ رشتوں کا بھرم قائم رکھنے سے بھی عاجز ہوتے ہیں۔ جب بھرم ٹوٹتا ہے توجو لوگ پوری مخلوق کو شرم سارکرتے رہتے ہیں، وہ خود ساری زندگی شرمندہ رہتے ہیں۔ بہت سے لوگ اپنی آنا کا بھرم رکھنے کیلئے شرم کی آخری حد سے بھی گزر جاتے ہیں اور ایسے کرتوت کر گزرتے ہیں جن پر پوری انسانیت صدیوں شرمندہ رہتی ہے۔

         اللہ تعالیٰ تو اپنا کرم ہرکسی پر کرتے ہیں لیکن اُس انسان کو بہت پسند کرتے ہیں جس میں شرم ہوتی ہے۔ شرم کو اسلامی فقہ میں حیا کانام بھی دیاجاتا ہے۔ اسلامی معاشرہ شرم و حیا کی خوبصورت تصویر ہوتا ہے۔ ہمارے اکابرین نے ہمیشہ ایک دوسرے کی توقعات کا بھرم رکھا۔ وہ ایک دوسرے پر ہمیشہ کرم کرتے تھے اورکوئی بُرائی کرتے ہوئے انہیں شرم آجاتی تھی۔ بعض لوگوں کاکہنا ہے کہ انسان کابھرم تب تک ہی قائم رہتا ہے جب تک اُس میں کچھ نہ کچھ شرم باقی رہے۔ جوبندہ شرم وحیا سے بالکل بے نیاز ہوجائے اوربے حیائی کوبُرائی نہ سمجھے توشاید اللہ پاک بھی اُس سے اپنی نظر کرم اُٹھالیتے ہیں۔حالانکہ اللہ پاک اپنی مخلوق کا ہمیشہ بھرم بھی رکھتے ہیں اور مائل بہ کرم بھی رہتے ہیں۔ انسان جیسے جیسے بزرگ ہوتا جاتا ہے، اللہ پاک کی نظر میں معتبر زیادہ ہوتاجاتاہے۔

         کرم، بھرم اورشرم بنیادی انسانی لوازمات ہیں اورہرکسی کی شخصیت کاحصہ ہونے چاہیئں۔ انسان کو اپنے جیسے انسانوں تو کیا تمام مخلوقات پرہمیشہ مائل بہ کرم رہنا چاہیے۔ ایک دوسرے کا بھرم رکھنا چاہیے اور شرم بھی کرنی چاہیے۔ پہلے لوگ ہمیشہ انسانیت کا اور رشتوں کابھرم رکھتے تھے۔ کسی زمانے میں سفرگھوڑوں پر کیاجاتاتھا۔ گھڑ سوار عموماً راستے میں کھڑے مسافروں کو بھی بیٹھا لیتے تھے۔ ایسے ہی ایک گھڑ سوارکا پالا ایک مجرم ٹائپ آدمی سے پڑ گیا جس کو اُس نے لاچار سمجھ کر لفٹ دی تھی۔ کچھ دور جاکر اُس شخص نے تلوار نکال لی اور گھڑ سوار سے اُس کے مال کا تقاضا کیا۔ گھڑ سوار نے نہایت عاجزی سے گزارش کی ”تم میرامال بھی لے لو اور گھوڑا بھی مگر کسی کو یہ سب بتانا مت“۔ قتل کا ارادہ کیے ہوئے شخص کو شدید حیرت ہوئی۔ اُس نے وجہ پوچھی تو جواب ملا ”تم یہ سب کس مجبوری کے تحت کررہے ہو، یہ مجھے نہیں پتہ لیکن بہت سارے پیدل حضرات ضرورت مند ہوتے ہیں۔ گھڑ سواروں کی نظر میں اُن کا بھرم قائم رہنا چاہیے۔ انسان کا انسان پر اعتبار قائم رہنا چاہیے“۔ کہتے ہیں کہ لفٹ لینے والے کو اپنے سوچ پر بہت شرم آئی۔ اُس نے معافی مانگی۔ انسانیت کابھرم قائم رہا۔

         شرم تو ہمارے ایک سادہ دل دوست کو بھی بہت آئی تھی۔ اُن کی ایک ہم جماعت اُن کو پسند کرتی تھیں اور اُن سے شادی کرنا چاہتی تھیں وہ ایک دن اُن کو اپنے گھر لے گئیں اور اپنی والدہ سے ملوایا۔ دوسرے دن بتایا ”والدہ کو آپ بہت پسند آئے ہیں“۔ ہمارے معصوم دوست نے شرماتے ہوئے کہا ”آپ کی بات سن کر خوشی ہوئی مگر میں شادی آپ ہی سے کروں گا“۔ ہمارے ہاں غلط مواقع پر شرمانے کا رواج بڑھ رہا ہے۔ ہم لائن میں کھڑے ہونے سے شرماتے ہیں۔ اپنی گلی کی صفائی کرتے ہوئے شرماتے ہیں۔ ٹریفک کے قوانین کی پابندی کرتے ہوئے شرماتے ہیں۔ ”کورونا“ اور دیگر بیماریوں سے بچاؤ کی بابت دی گئی حکومتی ہدایات کی پابندی کرنے سے شرماتے ہیں۔ لوگوں پر معمولی معمولی احسان کرنے سے شرماتے ہیں۔ اگر ہمیں کسی پربیجا فوقیت دی جائے تو اتراتے ہیں۔بعض لوگ نہایت بے شرمی سے دوسروں کا حق کھاتے ہیں۔ کمزروں کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ انسانیت کا بھرم توڑے جاتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں شرم،بھرم اور کرم کی بڑی خوبصورت روایات ملتی ہیں۔ بدقسمتی سے پچھلے کچھ عرصے سے ہمارے ہاں شرم کم ہوتی جارہی ہے۔ رشتوں کا بھرم بھی زوال پذیر ہے۔ لوگ ایک دوسرے پر کرم کرنے سے بھی گریز کرنے لگے ہیں۔ ہمارے ہاں لوگوں کی ایک کثیر تعداد مالی طور پر مضبوط نہیں ہے۔ اُن کا گزاراہ لوگوں کے کرم سے کافی حد تک مشروط ہے۔ ہمیں غلط کام کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔ بزرگوں کا بھرم رکھنا چاہیے۔ غریب لوگوں پر کرم کرنا چاہیے۔ جو شخص گناہ کرنے سے شرماتا ہے لوگوں کا بھرم قائم رکھنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ خالق کائنات کی ذات اُس پر اتنا کرم کرتی ہے کہ وہ اپنے رب کی نعمتیں گنتے گنتے تھک جاتا ہے مگر گن نہیں پاتا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارا بھرم اور شرم ہمیشہ قائم رکھے۔ ہمارے ہم وطنوں پر سدا اپنا کرم کرے۔ آمین۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

AD-1