Premium Content

Add

کیاقابل انتخاب کے چھوڑ جانے سے سیاسی جماعتیں ختم ہوسکتی ہیں؟

Print Friendly, PDF & Email

اُنیس سو پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات میں جاگیردار،سرمایہ داراور بااثر خاندانوں کی شخصیات جیت کر اسمبلیوں کا حصہ بنی۔ 1985ء سے لے کر 2002ء کے انتخابات تک ”قابل انتخاب“پاکستان کی سیاست پر چھائے رہے۔ قابل انتخاب 2002ء میں کے پی کے اور بلوچستان کے پشتون علاقوں میں ہار گئے تھے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس علاقہ میں کبھی بھی قابل انتخاب کی سیاست نہ ہوئی ہے۔ بلکہ سیاسی جماعتوں کے اُمیدواران ہی زیادہ تر جیتتے ہیں۔ 2008ء کے انتخابات سے قابل انتخاب کی سیاست کمزور ہونا شروع ہوئی اور سیاسی جماعتیں مضبوط ہوتی چلی گئیں۔ 2013ء اور2018ء کے انتخابات میں شہروں اور قصبوں کی حد تک سیاسی جماعتیں مضبوط تر ہوتی چلی گئیں جبکہ دیہات میں قابل انتخاب کا اثر قائم رہا۔ یہ قابل انتخاب جو آزاد حیثیت سے اسمبلیوں میں آئے تھے مختلف پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومتیں بنانے میں کامیاب رہے۔ یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ پاکستان کے چاروں صوبے مختلف سیاسی کلچر کے حامل ہیں۔

اگر صوبہ خیبرپختونخواہ کی بات کی جائے تو ہزارہ اور سابقہ فاٹا بیلٹ میں قابل انتخاب کااثر ابھی تک موجود ہے۔ تاہم مالاکنڈ ڈویژن، پشاورویلی، وسطی اور جنوبی خیبرپختونخواہ میں سیاسی جماعتیں بغیر قابل انتخاب کے جیتنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ خیبرپختونخواہ میں قابل انتخاب کی بجائے سیاسی جماعتیں ہی جیتتی ہیں۔ قومی اسمبلی میں صوبہ خیبرپختونخواہ کی45نشستیں ہیں جوکہ این اے- 01چترال سے این اے-45 کُرم تک ہیں اور یہاں پر سیاسی جماعتیں ہی الیکشن کامیاب ہوں گی۔ اُمیدواران کے آنے جانے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔

این اے- 46سے این اے- 48تک اسلام آباد کیپٹل ٹیرٹری کی تین سیٹیں ہیں اور یہ تینوں نشستیں سیاسی جماعت ہی جیتے گی یہاں قابل انتخاب کا کوئی کردار نہیں ہے۔

پنجاب کی قومی اسمبلی کی سیٹیں این اے-49اٹک سے این اے-189 راجن پور تک ہیں۔ پنجاب کے سیاسی کلچر کو شمالی، وسطی اور جنوبی پنجاب میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔ مزید یہ تینوں ریجن ووٹرزکی دیہی اور شہری تقسیم بھی رکھتے ہیں۔ شمالی پنجاب میں قابل انتخاب کا اثر کمزور ہوا ہے اورسیاسی پارٹیاں اور اُن کے نمائندہ اُمیدوار ہی الیکشن میں کامیاب ہوں گے۔ شمالی پنجاب میں راولپنڈی اور سرگودھا ڈویژن شامل ہیں۔ تاہم کچھ نشستوں پر قابل انتخاب کا اثر ابھی بھی قائم ہے۔ وسطی پنجاب لاہور، گوجرانوالہ، ساہیوال اور فیصل آباد ڈویژن پر مشتمل ہے۔ وسطی پنجاب میں بھی سیاسی پارٹیاں اکثریتی نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں ہیں۔ تاہم دیہی علاقوں میں مضبوط اُمیدواران کا ہونا ضروری ہے۔ اس ریجن میں قابل انتخاب کا اثر و رسوخ نہ ہونے کے برابر ہے۔ جنوبی پنجاب ڈیرہ غازی خان، ملتان اور بہاولپورڈویژنز پر مشتمل ہے اور یہاں پر ہمیشہ سے سردار، جاگیردار، پیرحضرات کامیاب ہوتے چلے آئے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں قابل انتخاب کا اثر کافی کم ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ملتان ڈویژن میں بھی سیاسی جماعتیں مضبوط ہوئی ہیں۔ بہاولپور ڈویژن میں قابل انتخاب اور سیاسی جماعتیں دونوں کا ہی کردار رہے گا۔ پنجاب کے ہر قومی اور صوبائی حلقے میں متعدد قابل انتخاب موجود ہیں لیکن ان قابل انتخاب کو اپنی سیاست بچانے کے لیے کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی ضرورت ہوگی۔

بلوچستان پشتون اور بلوچ بیلٹ پرمشتمل ہے۔ بلوچ بیلٹ میں بلوچ سردار ہی کامیاب ہوتے چلے آئے ہیں۔ تاہم گوادر اور جنوبی بلوچستان میں بلوچ قوم پرستوں کا بھی اثر موجود ہے۔ بلوچستان کے پشتون ایریا میں پشتون قوم پرست اور جمعیت علمائے اسلام کامیاب ہوتی چلی آئی ہیں۔ 2022ء کی حلقہ بندیوں کے مطابق بلوچستان میں قومی اسمبلی کی 17نشستیں ہیں۔اس لیے قومی سیاست میں 17نشستوں کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کی مجموعی تعداد پر زیادہ اثر نہیں پڑتا۔

 سندھ کے سیاسی رجحانات کراچی اور حیدرآباد میں مختلف ہیں جبکہ دیگر شہری اوردیہی سندھ پرمختلف ہیں۔ دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی مضبوط ہے اور وہ سندھ کے قابل انتخاب سے بہت کم ہارتی ہیں۔کیونکہ عام طور پر سندھ کے قابل انتخاب بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ ہیں۔ سندھ کی 61 نشستیں ہیں۔ حیدرآباد اور کراچی کے شہری علاقوں میں رجحانات مختلف ہیں اور سیاسی جماعتیں ہی کامیاب ہوتی ہیں۔

دو ہزار بائیس کی حلقہ بندی کے مطابق قومی اسمبلی کی 266 نشستیں ہیں۔ آنے والے الیکشن میں قابل انتخاب کی سیاست کمزور تر ہوگی اور اب 266نشستوں میں سے 200سے زائد ایسی نشستیں ہیں جہاں پر قابل انتخاب کا کردار تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ(ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام(ف)، متحدہ قومی موومنٹ کے اُمیدواران ہی ان 200نشستوں پر کامیاب ہوں گے اوراُمیدواران کی تبدیلی سے پارٹی پوزیشن میں زیادہ فرق پڑنے کا امکان نہ ہے۔ تاہم 60 کے قریب ایسی نشستیں ہیں جہاں پر اُمیدواران(قابل انتخاب) سیاسی جماعتوں کی پوزیشن کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ اس طرح باآسانی کہا جاسکتا ہے کہ سیاسی پارٹیوں میں موجودہ توڑ پھوڑ آنے والے الیکشن میں کچھ زیادہ اثر انداز نہ ہوگی۔ 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

AD-1