Premium Content

Add

پاکستان میں بغاوت کے مقدمات کا رواج کیوں ہے؟

Print Friendly, PDF & Email

پاکستان کے فوجداری قوانین نو آبادتی نظام سے ماخوذ ہیں۔ ہمارے ہاں پولیس، عدالتی، سول سروسز اور دوسرے سرکاری ادارے برطانوی سامراجی نظام سے معکوس ہیں۔

پاکستان کا آئین اور طرز سیاست بھی گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ انیس سو پینتیس (1935)سے اخذ کیاگیا ہے۔ اس طرح پاکستان کا وفاقی وپارلیمانی نظام اور سول و فوجداری قوانین بھی نوآبادتی طرز نظام رکھتے ہیں۔
برطانوی سامراجی دور میں ریاستی ادارے عوام کو رعایا کے طور پر کنٹرول کرتے تھے اور حکمران مقامی لوگوں سے غلاموں جیسا سلوک کرتے تھے اس لیے انسانی حقوق، شخصی آزادیاں اور قانونی تحفظ ناپید تھا۔

پاکستان کے قیام کے بعد قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق، شخصی آزادیاں، انصاف و مساوات پر مبنی نظام اور قوانین بنائے جانے تھے مگر ایسا نہ ہوسکا کیونکہ انگریزوں کی باقیات نے نظام کو نہ صرف جکڑ لیا بلکہ اپنے مفادات کے لیے اس کو بتدریج پروان چڑھایا۔
تعزیرات پاکستان کی دفعہ 124۔اےجس کا اضافہ 1870ء میں کیا گیا تھا کے مطابق ”جو کوئی شخص کسی الفاظ کے ذریعہ خواہ زبانی ہوں یا تحریری یا کسی علامت سے یا کسی دکھائی دینے والے خاکے کے ذریعے مرکزی یا صوبائی حکومت کی جو بذریعہ قانون قائم ہو۔ نفرت یا توہین کا مرتکب ہو یا اس کی کوشش کرے یا اس کی اطاعت نہ کرنے پر اکسائے یا اکسانے کی کوشش کرے تو اسے عمر قید کی سزا دی جائے گی“ بغاوت کے مقدمات کا اندراج نئی بات نہ ہے۔

ریپبلک پالیسی اردو انگریزی میگزین خریدنے کیلئے لنک پر کلک کریں۔

https://www.daraz.pk/shop/3lyw0kmd

قیام پاکستان کے فقط تقریباً ساڑھے تین سال بعد 1951ء میں پہلا بغاوت کا مقدمہ مشہور شاعر فیض احمد فیض سمیت دیگر لوگوں کے خلاف درج ہواکہ اُنہوں نے پہلے ”وزیراعظم“ خان لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش تیار کی تھی۔ یہ مقدمہ پنڈی سازش کیس کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اگر تلہ سازش کیس کے نام سے مشہور مقدمہ بغاوت جنرل ایوب خان کے دورِ صدارت میں شیخ مجیب الرحمن سمیت دیگر افراد کے خلاف درج کیا گیا۔
سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں خان عبدالولی خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف بغاوت کا کیس حیدر آباد سازش کیس کے نام سے جانا جاتا ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ”ن“ کے قائم مقام صدر جاوید ہاشمی کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا جس میں اُنہیں 23برس کی سزا ہوئی اور بعد میں سپریم کوٹ سے انہیں رہائی ملی۔
حالیہ دور میں وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف، شبہاز گل، ایمان مزاری دختر، شیریں مزاری، مریم نواز شریف وغیرہ کے خلاف بغاوت یا بغاوت پر اکسانے کے الزامات کے تحت مقدمات کا اندراج کیا جاچکا ہے۔
پاکستان کے سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف نہ صرف بغاوت کے الزامات لگاتے رہتے ہیں بلکہ آئین سے انحراف اور آئین توڑنے اور غداری جیسے سنگین الزامات بھی لگاتے رہتے ہیں البتہ اس الزام کا مقدمہ اب تک صرف سابقہ صدر جنرل پرویز مشرف مرحوم پر قائم کیا گیا تھا جو کبھی بھی اس مقدمہ کی سماعت کیلئے قائم کی گئی عدالت میں پیش نہ ہوئے تھے اور اُنہیں عدم حاضری میں ہی سنگین غداری سزا ایکٹ1973 کی دفعہ 2 کے تحت سزائے موت سنائی گئی تھی مگر ان کے بیرون ملک قیام اور موت کی وجہ سے اس سزا پر عمل نہ ہوسکا تھا۔
عملی طور پر ہر حکومت وقت نے اپنے سیاسی مخالفین کی آواز کو دبانے کے لیے بغاوت جیسے سنگین الزام کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا مگر قانونی تقاضے پورے نہ ہونے کی وجہ سے اکثر مقدمات کا اختتام عدالتوں سے اخراج یا الزام علیہان کی ضمانتوں کی صورت میں ہوا۔
گذشتہ ماہ لاہور ہائی کوٹ کے معزز جج جناب شاہد کریم صاحب نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 124(ایف) کو خلاف آئین قرار دے دیا۔ اس طرح کم ازکم بغاوت کے مقدمات اس دفعہ جو کہ سامراجی نظام کا تسلسل تھی کے تحت درج نہیں ہوسکیں گے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے کہ پاکستان کے تمام ریاستی اداروں اور نظام(جوکہ ابھی تک کلونیل اور سامراجی ہے) کے اندر ابھی بھی وہ ریاستی جبر شعوری اور لاشعوری طور پر قائم ہے بلکہ یہ کہنا غیر مناسب نہ ہوگا کہ یہ ریاستی جبر اپنی ساخت کے لحاظ سے اداروں اور ان کو چلانے والوں کی نفسیات میں قائم ہے اس لیے انسانی حقوق کی مانگ، آزادی رائے، جمہور اور آئین کی بالادستی کو ابھی بھی بغاوت ہی گردانا جاتا ہے اس لیے ضرورت اس امرکی ہے کہ جمہوری اور عوامی رویوں کو سیاست میں رائج کیا جائے اور یہ مشکل کام صرف عوام ہی اپنی طاقت سے انجام دے سکتی ہے۔
ابتدائی طور پر ریاستی اداروں کو خودکے اندر پائے جانے والے عدم تحفظ کے احساس اور خوف کو ختم کرنا ہوگا اور یہ ماننا ہوگا کہ طاقت کا سرچشمہ اور محور صرف عوام ہیں۔ بغاوت کے مقدموں کا بے جا اور بے وقت استعمال محب وطن افراد کو بھی ریاست اور ریاستی اداروں سے بدظن کرسکتا ہے۔
پاکستان ایک وفاق ہے اور بطور وفاقی ریاست تمام گروہوں کو ساتھ لے کر چلنا ناگزیر ہے کیونکہ وفاقی ریاستوں کو صرف طاقت کے بل بوتے نہیں چلایا جاسکتا۔
محمد طاہر مقصود چھینہ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

AD-1