تحریر: ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی
کالم نگار نشترمیڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کاحصہ ہیں۔
بعض لوگوں کو سیر سے بیر ہوتا ہے تو بعض لوگوں کیلئے سیر کا مطلب خیر ہی خیر ہوتاہے۔ بعض لوگ گھر سے پیر باہر نہیں نکالتے تو ایسے بھی حضرات ہیں جو کئی کئی سال تک اپنے ذاتی گھر میں پیر تک نہیں دھرتے۔ بعض لوگوں کے پیر میں چکر ہوتا ہے تو بعض لوگ خود ہی گھن چکر ہوتے ہیں۔ کسی کے جوتے پر اگر جوتا آجائے تو وہ سیر کرنے نکل کھڑا ہوتا ہے۔ جب کہ بعض سست الوجود لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اگر اُن کے دوست انہیں جوتے بھی ماریں وہ پھر بھی سیر کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ موبائل فون اور سوشل میڈیا کے جنون نے بہت سے لوگوں کے دل میں سیر وسیاحت کا شوق کبھی پیدا ہی نہیں ہونے دیا:۔
ہم تو اسیر کنجِ قفس ہو کے مر چلے
اے اشتیاقِ سیر چمن تری کیا خبر
اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں بڑا تنوع ہے اس لیے آج بھی ہمارے شہروں میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو پوری دنیا کی سیر کرنا چاہتے ہیں اور ایسے سادہ دل بھی ہیں جو نزدیکی دریا کا پل پار کرتے ہی سمجھنا شروع کردیتے ہیں کہ پردیس شروع ہوگیا۔ وہ اپنے دیس لوٹنے کی دعائیں مانگتے رہتے ہیں اور گھر بیٹھنے والوں کواپنی واپسی کیلئے منتیں ماننے کی درخواست کرتے رہتے ہیں۔
سفر کو ہمارے ہاں وسیلہ ظفر بھی سمجھاجاتارہا ہے تو سقر بھی۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر سفر شروع کردیا جائے تو مسافر نواز بہترے مل جاتے ہیں۔ راستے میں مشکلات ہوتی ہیں تو ہزارہاشجرِ سایہ دار بھی ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو مسافروں سے بیر ہوتا ہے تو بہت سے لوگ مسافروں کیلئے خیر ہی خیر ہوتے ہیں۔ ابن بطوطہ کااگر جوتا بھی ٹوٹ جاتاتھا تو وہ سفر سے لطف اندوز ہوتے رہتے تھے کیونکہ مسافروں کی دیکھ بھال پورا معاشرہ کرتاتھا۔ بہت سارے مسافر دنیا کی تاریخ میں امر ہوچکے ہیں اُن کے سفر نامے آج تک پڑھے جاتے ہیں۔ ابن بطوطہ سے لے کر ابن انشاء تک نے اس صنف میں اپنے جوہر دکھائے ہیں۔ ہمارے لوگ چینی اور چین کے ہمیشہ سے شوقین رہے ہیں۔ اس لیئے ابن انشاء نے یہ مشورہ دیا کہ ”چلتے ہو تو چین کو چلیے“۔
مطالعہ اور مشاہدہ میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سفر تعلیم کا بھی ایک بہترین ذریعہ ہے۔ قرآن مجید ہمیں بار بار زمین پر سیر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ قرآن پاک کے مطابق تخلیق کا آغاز سمجھنے کیلئے دنیا کی سیر بہت ضروری ہے۔ انسان کو اس لیئے بھی چل پھر کرمختلف مقامات دیکھنے چاہیں تاکہ وہ سمجھ سکے کہ اُن لوگوں کا کیا انجام ہوا جو اپنی دانست میں خالق کائنات اور اُس کی مخلوق سے بیر رکھتے تھے وہ اہل خیر نہیں تھے اوراہل خیر کے دشمن تھے۔ اپنی تمام تر قوت کے باوجود انہوں نے اپنی جانوں پر خود ہی ظلم کیااوراُن کا انجام قیامت تک آئندہ نسلوں کوعبرت دلاتا رہے گا۔
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.
اگرانسان عقل سے کام لے کر زمین کی سیر کرے تو اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ بندہ کو اہل خیر ہونا چاہیئے۔ کسی سے بیر رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہمارا ایک المیہ مگر یہ بھی ہے کہ جدید دور میں ہم چاند ستاروں کی گزرگاہوں کی سیر کے قابل ہوچکے ہیں۔ سورج کی شعاعوں کو گرفتار کرکے اپنے تصرف میں لاچکے ہیں مگر اپنے من کی دنیا کی سیر کرنا ہم نے چھوڑ دیا ہے۔ اکثر انسان خود سے ہی بیر رکھتے ہیں وہ شیطان کے بہکاوے میں آکر اپنی ذات سے اور دیگر انسانوں سے بیر رکھتے ہیں۔ فرقان کہتا ہے کہ شیطان کی یہ خواہش رہی ہے کہ وہ انسانوں میں بیر اور دشمنی ڈلوادے اورانہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روکے رکھے۔ خالق کائنات کا منشایہ ہے کہ انسان سراپاخیر ہوجبکہ انسان اپنے جلد باز ہونے کی بناء پر بعض اوقات شر ایسے مانگتا ہے جیسے خیر مانگ رہا ہو۔ بہت سے لوگ حاسد ہوتے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی پر خیر اُتاری جائے مگر رب کائنات نے متقیوں کیلئے خیر ہی خیر مقدر کررکھی ہے۔
ہمارے خطے کے لوگ سیرکرنے کے اور سیر کرنے والوں کے شوقین رہے ہیں۔وہ سیر کرنے والے اور خیر بانٹنے والے رہے ہیں۔ کسی سے بیر رکھنے کا ہمارے ہاں رواج نہیں رہا۔ کئی عناصر ہمہ وقت یہ سازش کرتے رہتے ہیں کہ ہمارے علاقے سیر کرنے والوں کی نظر میں ناپسندیدہ ٹھہریں۔ ہمارے امن وامان کو لے کر سازشیں ایک طویل مدت سے جاری ہیں مگر ہمارے لوگوں کا ازل سے یہی وطیرہ ہے ”سب کا بھلا سب کی خیر“۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بیر رکھنے والوں کے شر سے بچائے۔ ہمارا شمار اہل خیر میں کرے اور دنیا اور آخرت میں ہمارا مقدر خیر ہی خیر ہو۔