
مصنف: طاہر مقصود
لکھاری پنجاب پولیس سے ریٹائرڈ ایس ایس پی ہیں۔
جناب ڈاکٹر عثمان انور صاحب نے پنجاب پولیس کی کمان سنبھالتے ہی ماتحت افسران کی فلاح بہبود کیلئے بہت سے عملی اقدامات اٹھائے اور اس دوران شہدا پولیس کے ”خاندانوں“ اور بچوں پر خصوصی توجہ دی گئی اور تقریباً تمام ضلعی اور ریجنل پولیس ہیڈ کوارٹرز پر تقریبات کا انتظام کیا گیا اور پولیس افسران نے شہدا پولیس کے خاندانوں کو یہ یقین دلایا کہ وہ تنہا نہیں ہیں اور انکے دُنیاوی مسائل کے حل کے لئے پورا محکمہ پولیس انکے ساتھ کھڑا ہے، خود انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب جناب ڈاکٹر عثمان انور نے راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک شہید انسپکٹر پولیس کے بیٹے کو اپنے دفتر بلوایا اور انسپکٹر جنرل کی کرسی پر بٹھایا۔ انسپکٹر جنرل پولیس بذریعہ سوشل میڈیا زیر کمان افسران سے رابطہ میں رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں راولپنڈی پولیس کے نام انکا ویڈیو پیغام کافی وائرل ہوا جس میں جہاں وہ پولیس کوشاباش دے رہے تھے وہیں پردوران ڈیوٹی کھانے کا معیاربہتر نہ ہونے پر ماتحت افسران سے معذرت بھی کی حالانکہ کھانا کی فراہمی براہ راست انسپکٹر جنرل پولیس کی ذمہ داری نہ تھی اسکے باوجود معذرت، یہ کام کوئی بڑے دل اور روشن دماغ والا شخص ہی کرسکتا ہے۔
گزشتہ روز لاہور میں ایک ریٹائرڈ ایس پی کو قتل کردیا گیا تو انسپکٹر جنرل پولیس کچھ ہی وقت کے بعد بانفس نفیس موقع واردات پر تشریف لے گئے اور مقتول کے ورثاء سے ملاقات کی۔ ایس پی کے قتل کے فوری بعد جناب ڈاکٹرعثمان انور کا موقع واردات پر پہنچنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ انکے دل میں نہ صر ف حاضر سروس افسزان بلکہ ریٹائر افسران اور انکے خاندان کے لیے ہمدردی کا احساس شدت کے ساتھ موجود ہے۔
انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب ایک ویڈیو پیغام کے ذریعہ اپنے زیر کمان افسران کو بتا رہے تھے کہ انکی فلاح وبہبود کے لیے رقم 75 کروڑ سے بڑھا کر 216 کروڑ روپیہ کردی گئی ہے اور صرف میڈیکل فنڈز کی مد میں 67 کروڑ روپے مخصوص کئے گئے ہیں۔
پنجاب اور سندھ کے سرحدی علاقہ میں ڈاکوؤں کے خلاف جاری آپریشن کی قیادت جناب عثمان انور نے بذات خود کی جو اپنی مثال آپ ہے۔ انکے اس عمل سے ان کی قدرو منزلت میں یقینی طور پر اضافہ ہوا ہے۔
ایک ویڈیو پیغام میں جناب آئی جی کانسٹیبل سے ایس پی تک کے عہدوں پر دو ہزار سے زائد افسران کو ترقی دیے جانے کا بتا رہے تھے نیز ترقیوں کا یہ سلسلہ جاری رکھنے کی نوید بھی سنائی۔ کسی بھی ملازمت میں ترقی نہ صرف ترقی پانے والے ملازم بلکہ اسکےخاندان اور بچوں کے لئے بھی باعث مسرت ہوتی ہے۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترقی پانے والے افسران کو بیچ لگانے کی تقریب میں افسران کے اہل خانہ کو بھی مدعو کیا گیا تھا اور یقیناً یہ لمحہ آئندہ زندگی میں انکے لئے یادگار رہے گا۔
نئے ترقی پانے والے اکتالیس ”ایس پیز“ کے بیچ لگانے کی تقریب کے بارے میں عجیب خبرآئی ہے (دروغ برگردن راوی) کہ اس موقع پر آئی جی آفس میں تعینات دو سینئرافسران نے نئے ترقی پانے والے افسران کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ قبل ازیں ایس پی کے عہدہ میں موجود جن افسران نے پولیس سروس آف پاکستان میں شمولیت سے انکار کیا ہے اور صوبائی سطح پر گریڈ 19، 20اور 21میں ترقی کے لئےقوانین بنائے جانے کا مطالبہ کیا ہے وہ ناجائز ہےایسا سن کر مجھے حیرانی ہوئی ہے کہ پولیس جس کا بنیادی کام ہی دیے گئے اختیارات کاستعمال کرتے ہوئے ملکی قوانین پر عمل کرانا ہوتا ہے خوداپنے اندر لاقانونیت کا شکار ہے کہ ڈی پی او اور دیگر بہت سی گریڈ 19کی پوسٹوں پر گریڈ 18 کے افسران تعینات ہیں۔ جبکہ پنجاب کے بجٹ میں گریڈ 19 کی 89 آسامیوں کی منظوری دی گئی تھی، جن میں سے پچاس سے زائد آسامیاں گزشتہ کئی سالوں سے خالی پڑی ہیں۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ آسامیاں پولیس سروس آف پاکستان سے پرُ کی جائیں گی تو اسے یہ بات جان لینی چاہیے کہ پی ایس پی رولز کے ساتھ منسلک شیڈول کے مطابق پنجاب میں ایس پی سے آئی جی تک کل 162 افسران کی منظوری ہے جبکہ پنجاب کے منظورشدہ بجٹ2022 ,2023 کے مطابق ان پوسٹوں کی تعداد 364 ہے۔ اس طرح تقریباً200 آسامیوں کا فرق دور کرنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ افسران اگر پی ایس پی کے قیام کے نوٹی فکیشن کی شق 4 اور 5 پڑھ لیں تو سمجھ آجائے گی کہ صوبائی پولیس کے افسران کو پولیس سروس آف پاکستان میں شامل کرنا اب غیر قانونی ہے کیونکہ اٹھارویں آئینی ترمیم میں کنکرنٹ لسٹ کو ختم کردیا گیا تھا اور فیڈرل لجسلیٹولسٹ میں پولیس شامل نہ ہے اس طرح پولیس خالصتاً ایک صوبائی معاملہ ہے اور پنجاب گورنمنٹ رولز آف بزنس 2011 کے مطابق پولیس کے متعلقہ تمام معاملات بشمول پولیس اسٹیب،ایڈمنسٹریشن،پولیس رولز وغیرہ ہوم ڈیپارٹمنٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ اسی طرح حکومت پاکستان رولز آف بزنس 1973 کے مطابق وفاقی پولیس کے معاملات کو دیکھنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے اور یہ تو واضع ہے کہ پولیس سروس آف پاکستان وفاقی پولیس ہے۔
پولیس آرڈر پر عمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ افسران کی تعیناتی منظور شدہ آسامی کے عہدہ کے لحاظ سے کی جائے اور اسکا صرف ایک حل ہے کہ گریڈ 18 سے گریڈ21 تک افسران کی ترقی کا طریقہ کار صوبہ کی سطح پر طے کیا جائے۔ یاد رہے کہ حکومت گلگت بلتستان نے اپنے دو افسران کو گریڈ 19 میں ترقی دے دی ہے۔ اسی طرح خیبر پختونخوا حکومت نے بھی صوبائی پولیس آفیسر کو گریڈ19 اور گریڈ20 میں ترقی کیلئے رولز بنا لیے ہیں۔
زیر کمان افسران سے محبت اور صلہ رحمی کی وجہ سے انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب جناب ڈاکٹر عثمان انور صاحب اپنی شہرت کے بام عروج پر ہیں۔ اُن سے میری گزارش ہے کہ ایسے افسران جنہوں نے پی ایس پس گروپ میں شامل ہونے سے انکار کیا ہے اور صوبہ کی سطح پر گریڈ18 سے آگے ترقیاں چاہتے ہیں اور اس سلسلہ میں عدالتوں سے رجوع کررکھا ہے کو اپنے دفتر بلوا کر پولیس ایگزیکٹیو بورڈ کے ساتھ میٹنگ کروائیں اورمجھے یقین ہے کہ مسئلے کا حل نکل آئے گا بصورت دیگر محکمہ پولیس کی کارکردگی پر نہ صرف حرف آئے گا بلکہ جگ ہنسائی کا موجب بھی ہوگا۔