ریاست کے اہم ستونوں کے درمیان کشیدگی میں نرمی کے آثار نظر نہیں آرہے ۔ منگل کو قوم نے دیکھا، جب قومی اسمبلی نے چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرنے والے قانون کی پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ طلب کرنے کو چیلنج کیا۔ قانون سازوں کے ریکارڈ طلب کرنے کے حوالے سے تحفظات بے جا نہیں ہیں۔
آئین کے آرٹیکل 66 اور 69، جو قومی اسمبلی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے حوالے سے ہیں، ایوان کی طرف سے اٹھائے جانے والے معاملات میں پارلیمانی آزادی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ عدالت کی طرف سے پارلیمنٹ کے معاملات میں بے جا مداخلت کو آئینی حدود کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھا جائے گا – چاہے اس معاملے میں سپریم کورٹ نے محض ریکارڈ طلب کیا ہو۔
انتخابی مسائل سے منسلک واقعات کا ایک سلسلہ، موجودہ تعطل کا باعث بنا ہے ۔دونوں فریقین اپنی پوزیشن سے ایک انچ بھی نہ ہٹنے کے اپنے فیصلے میں غلطی کر رہے ہیں۔ یہ بینچوں کی تشکیل میں واضح ہوا، جس میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے التوا کا جائزہ لینے کے لیے فل کورٹ کے حکومتی مطالبے کو پورا کرنے سے انکار کر دیا۔
حکومت کی طرف سے پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کے لیے 90 دنوں کے اندر انتخابات کرانے کے سپریم کورٹ کے حکم کی کھلی خلاف ورزی بھی یکساں طور پر عیاں ہے۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کوئی اس صورتحال کو کس طرح دیکھتا ہے – جس میں پارلیمنٹ نے اپنی خودمختاری کے دفاع کا صحیح فیصلہ کیا ہے یا جہاں عوام کے مینڈیٹ سے گریز کرنے والوں کے ذریعہ عدالتی رٹ کو ناکام بنایا جارہا ہے – اگراسی راسے پہ چلتے رہے تو نتیجہ تباہ کن ہوگا۔
اعتدال کی زبان بین الاقوامی میدان میں موثر سفارت کاری کی کلید ہے۔ اعتدال کا طریقہ کار ملک کے اندربھی مسائل کو حل کرنے میں مدد کرسکتا ہے اور بین الاقوامی طور پر بھی اس کا ایک اچھا اثر پڑتا ہے۔ اعتدال کے طریقہ کار سے ہٹ کر مسائل کو حل کرنا آسان نہ ہو گا۔
مثال کے طور پر، منگل کو اسمبلی میں اپنی سخت گیر تقریر میں، وزیر دفاع خواجہ آصف نے خود احتساب عدالت کے بارے میں سخت نکتہ اٹھایا ۔ اُن کا یہ کہنا کہ اگر ”وہ جنگ چاہتے ہیں تو جنگ ہوگی“ ایک خطرناک پیغام دینے کی نشاندہی کرتا ہے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کی جانب سے بھی دھمکی دی گئی کہ اگر سپریم کورٹ کا پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسرپبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بریفنگ نہیں دیتا اور پیش نہیں ہوتا تو اُن کے گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے جائیں گے۔ قانون سازی اور عدالتی دونوں شاخوں نے اس کشمکش میں حدوں کو عبور کر لیا ہے،ایسے اقدامات سے ریاست کے معاملات جو پہلے سے ہی بہت خراب ہیں مزید خراب ہو رہے ہیں۔
ملک کے معاشی امکانات کمزور ہیں اور سماجی ادارے تباہی کے دہانے پر ہیں۔ اس سے باہر آنے کا واحد راستہ انتخابات ہیں۔ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان ہونے والی بات چیت نے انتخابات کے حوالے سے کچھ پیش رفت دکھائی ہے اور مسئلہ کی کلید کو برقرار رکھا ہے۔