طویل انتظار کے باوجود ابھی تک فنڈز نہیں ملے

تحریر: حفیظ اللہ خان خٹک

ایک  طویل انتظار کے باوجود بھی ایسا لگتا ہے کہ آئی ایم ایف اب بھی قرض دینے سے انکار کر رہا ہے، یہاں تک کہ پاکستانی حکام کا خیال تھا کہ بیل آؤٹ قرض کو حتمی شکل دے دی جائے گی اور سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے وعدہ کردہ مالی امداد کی تصدیق کے بعد طویل عرصے سے تعطل کا شکار فنڈنگ ​​پروگرام دوبارہ شروع ہو جائے گا۔

یہ کہ آئی ایم ایف کی جانب سے ڈیل کوفائنل  کرنے کے لیے مزید یقین دہانیوں کا مطالبہ عین اس وقت سامنے آیا جب وزیر اعظم شہباز شریف مارکیٹوں کو یقین دہانی کر ارہے تھے کہ قرض دہندہ کے پاس ”دوستانہ ممالک“ کے بعد عملے کی سطح کے معاہدے کے لیے اپنی منظوری ملتوی کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔وزیراعظم کی جانب سے  دی گئی مالیاتی یقین دہانیاں کافی حیران کن تھیں۔

درحقیقت، مالی پریشانی میں مبتلا دیگر ممالک، جیسے سری لنکا، زیمبیا، وغیرہ، کو بھی چین اور مغربی ممالک کے درمیان تصادم کی وجہ سے حالیہ مہینوں میں آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے متعلقہ قرض کے سودوں کو حتمی شکل دینے کے لیےمعمول سے زیادہ وقت تک انتظار کرنا پڑا۔ بظاہر آئی ایم ایف کی جانب سے فنڈ پروگرام بحالی میں مزید تاخیر کا کوئی جواز نہیں ہے۔  لیکن اس کے باوجود بھی آئی ایم ایف فنڈ پروگرام میں تاخیر سمجھ سے بالاتر ہے۔  پاکستان نے آئی ایم ایف کی سخت سے سخت شرائط پوری کیں۔ پٹرول کی قیمتیں ہوں یا پھر توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہو، حکومت نے غریب اور متوسط آمدنی والے طبقہ پر بوجھ ڈال کر آئی ایم ایف کی شرائط پوری کیں، اب پروگرام کی بحالی میں مزید تاخیر کرنے کا بہت کم جواز ہے۔

ابتدائی طور پر، آئی ایم ایف کی کارکردگی کا جائزہ مکمل کرنے میں ہچکچاہٹ اور پہلے سے سخت اقدامات کے نفاذ پر اس کے اصرار کو گزشتہ اور موجودہ دونوں اداروں کی جانب سے پروگرام کے اہداف کی بار بار خلاف ورزی کی وجہ سے فنڈ اور پاکستان کے درمیان گہرے اعتماد کی خلیج کے نتیجے کے طور پر دیکھا گیا۔ حکومت لیکن پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے فنڈ کے ڈالرز کے حصول کے لیے عملی طور پر تمام پیشگی اقدامات کرنے کے باوجود آئی ایم ایف معاملات میں تاخیر کرتا رہا۔

اس سے پاکستان میں آئی ایم ایف  کی شبیہہ کو بہتر بنانے میں کوئی مدد نہیں ملی کیونکہ فنڈز کے اجراء میں تاخیر قیمتوں میں مسلسل اضافے سے متاثرہ ملک کی مالی پریشانیوں کو مزید بڑھا رہی ہے، جس کے لیے فنڈ کی امداد کے لیے سخت شرائط جزوی طور پر ذمہ دار ہیں۔

لیکن جب کہ پروگرام کی بحالی میں تاخیر کے حوالے سے آئی ایم ایف کے موقف سے پریشان ہونے کی ہر وجہ موجود ہے، پاکستان کے سیاست دانوں اور پالیسی سازوں کو اس بار کثیر جہتی اور دو طرفہ قرض دہندگان کے طرز عمل سے کچھ سخت سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ انہیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں دنیا بہت بدل چکی ہے۔

دنیا اب ان لوگوں کی مدد کے لیے تیار نہیں ہے جو اپنی مدد نہیں کرتے۔ لہذا پاکستانی حکمرانوں کو اب سنجیدگی سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بیرونی قرضوں پر انحصار کی بجائے ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس سے مقامی اشیاء کی تیاری اور ان کو مستحکم کیا جا سکے۔ جو نہ صرف ملکی کی ضروریات کو پوری کرے بلکہ ان کو بیرونی ممالک میں بھیج کرملکی آمدنی میں اضافہ کیا جائے۔چھوٹے کارخانہ داروں کو ٹیکس میں  ریلیف دیا جانا چاہیے۔

سعودی حکومت نے بھی پاکستان پر زور دیا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کے نظم و ضبط کے اندر رہ کر کام کرے اور بیرونی کھاتوں کو ٹھیک کرنے کے لیے اپنے لوگوں پر ٹیکس لگائے۔  اگر حکومت  سعودیہ کی تجویز مان لیتی ہے تو ملک میں مزید مہنگائی ہو جائے گی۔ پاکستانی عوام پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔  اب وقت آ چکا ہے کہ آئی ایم ایف یا پھر دوسرے ممالک کے قرضوں پر انحصار کی بجائے اپنی آمدن کو بڑھایا جائے۔

امریکیوں نے 2010 کے تباہ کن سیلاب کے بعد بھی ایسا ہی کچھ کہا تھا  لیکن  تب ہم نے ان کی بات نہیں سنی، اور اس طرح کی تنبیہات کو نظر انداز کرتے رہے۔ لیکن کب تک؟ یہ سچ ہے کہ اس بار بھی ہمیں جلد یا بدیر مدد مل سکتی ہے۔ لیکن جب تک ہمارے سیاست دان اور پالیسی ساز سخت فیصلے نہیں لیتے اور ان پر عمل نہیں کرتے، دنیا ہمیں ہماری اپنی بنائی ہوئی گندگی سے بچانے کے لیے مزید قدم نہیں اٹھائے گی۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos