طاہر مقصود
پاکستان میں جب بھی قومی یا صوبائی اسمبلی کے اراکین، سینیٹرز یا دیگر عوامی نمائندوں کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جاتا ہے، تو سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہو جاتا ہے۔ عوامی حلقوں، ٹی وی مباحثوں اور گلی محلوں میں ایک ہی آواز سنائی دیتی ہے: “عوام فاقے کر رہے ہیں اور یہ لوگ اپنی تنخواہیں بڑھا رہے ہیں!” یہ ردعمل نہ صرف شدید ہوتا ہے بلکہ اکثر جذباتی اور سطحی بھی ہوتا ہے۔ بلاشبہ عوامی ناراضی کی کچھ وجوہات حقیقی ہیں—مہنگائی، بیروزگاری، صحت، تعلیم اور انصاف جیسے بنیادی مسائل اب بھی حل طلب ہیں۔ عوام کا اپنے نمائندوں پر اعتماد مسلسل متزلزل ہو رہا ہے، اور ان کے طرزِ حکمرانی پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔
لیکن اس پوری بحث کو محض “تنخواہوں میں اضافے” کے محدود تناظر میں دیکھنا ایک غلطی ہے۔ پاکستان ایک آئینی جمہوری ریاست ہے، جس کی بنیاد تین بنیادی ستونوں پر ہے: عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ۔ ان میں سے مقننہ وہ ادارہ ہے جو قانون سازی کرتا ہے، بجٹ منظور کرتا ہے، اور حکومتی پالیسیوں کی نگرانی کرتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جب عدلیہ یا بیوروکریسی کی تنخواہیں بڑھتی ہیں تو عوام خاموش رہتے ہیں، مگر جب مقننہ کے اراکین کی تنخواہوں کا معاملہ آئے، تو شور و غوغا شروع ہو جاتا ہے۔
اس رویے سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ جیسے مقننہ ریاست کا کم تر ادارہ ہو، حالانکہ جمہوری نظام میں سب سے اہم کردار قانون ساز اداروں کا ہوتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے نمائندے آزاد، خودمختار اور فعال ہوں، تو انہیں ایک باوقار مالی حیثیت فراہم کرنا ضروری ہے۔ وہ نمائندے جو ملکی سطح پر قانون سازی اور پالیسی سازی جیسے اہم کاموں میں مصروف ہوتے ہیں، اگر معاشی طور پر غیرمحفوظ ہوں گے، تو ان پر کرپشن، دباؤ اور دیگر مفادات کے اثرات زیادہ ہوں گے۔ معاشی استحکام ہی ان کے کردار کو غیرجانبدار اور عوامی مفاد کے قریب رکھ سکتا ہے۔
البتہ تنخواہوں کی مخالفت کرنے والوں کا غصہ مکمل طور پر بے بنیاد بھی نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ نمائندے واقعی میرٹ پر منتخب ہوئے ہیں؟ کیا وہ اسمبلی میں اپنی حاضری یقینی بناتے ہیں؟ کیا انہوں نے کوئی قانون سازی کی ہے یا عوامی مسائل پر آواز اٹھائی ہے؟ اگر ایک رکنِ اسمبلی صرف تصویریں کھنچوانے، سرکاری پروٹوکول لینے اور اقتدار کے مزے لینے میں مصروف ہے، تو اس کے لیے تنخواہ کا مطالبہ یقیناً شرمناک ہو گا۔
لہٰذا، بحث تنخواہوں پر نہیں، بلکہ انتخابی نظام کی شفافیت، جماعتی ٹکٹوں کی تقسیم، اور نمائندوں کی کارکردگی پر ہونی چاہیے۔ اگر کوئی رکنِ اسمبلی آزادانہ، شفاف اور منصفانہ انتخابات کے نتیجے میں ایوان میں پہنچا ہے، اور وہ وہاں قانون سازی، بجٹ سازی، اور عوامی مفاد کی نگرانی میں فعال کردار ادا کر رہا ہے، تو اس کی بہتر تنخواہ ایک جمہوری ضرورت ہے، نہ کہ کوئی لگژری یا جرم۔
ریاست کے دیگر ستونوں جیسے عدلیہ اور بیوروکریسی کو جو مراعات دی جاتی ہیں، اگر وہ مقننہ کو نہ دی جائیں تو یہ جمہوری توازن کے لیے خطرناک ہو گا۔ اگر پارلیمان کو کمزور رکھا جائے، یا اسے دانستہ بدنام کیا جائے، تو طاقت کا توازن ایگزیکٹو یا غیر منتخب اداروں کی طرف جھک جائے گا، جو کسی بھی جمہوریت کے لیے زہر قاتل ہوتا ہے۔
اس لیے ہمیں بحث کو جذباتی سطح سے نکال کر اصولی اور ادارہ جاتی سطح پر لے جانا ہو گا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ایک مؤثر، خودمختار اور قابلِ اعتماد مقننہ صرف اس وقت ممکن ہے جب اس کے اراکین کو وہی وقار، وسائل اور اعتماد دیا جائے جو کسی بھی ریاستی ستون کو دیا جانا چاہیے۔ بصورت دیگر ہم ایک ایسی جمہوریت کے ساتھ جیتے رہیں گے، جس میں صرف نام جمہوریت کا ہو، مگر عملاً فیصلے کہیں اور ہو رہے ہوں۔