بلاول کامران
ایئر انڈیا کی بدقسمت پرواز کا حادثہ ایک دل دہلا دینے والا سانحہ ہے جس نے نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر میں ہوابازی کے شعبے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ 12 جون کو احمد آباد سے لندن روانہ ہونے والی یہ پرواز صرف ایک منٹ بعد زمین بوس ہو گئی، جس میں 242 میں سے 241 افراد جاں بحق ہو گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک میڈیکل کالج ہاسٹل پر طیارہ گرنے سے 28 افراد، جن میں طلباء اور ڈاکٹرز شامل تھے، بھی جان کی بازی ہار گئے۔
تحقیقات کے اہم ترین حصے، یعنی بلیک باکس، کی بازیابی ہو چکی ہے، جو کہ ہاسٹل کی چھت سے ملا۔ حکام کے مطابق، پرواز نے 200 میٹر کی بلندی حاصل کی تھی جب وہ اچانک نیچے گرنے لگی اور آگ کا گولہ بن کر ہاسٹل سے جا ٹکرائی۔ یہ مقام ہوائی اڈے کی حدود سے محض دو کلومیٹر دور واقع تھا۔
اس اندوہناک سانحے کے بعد عالمی میڈیا میں چہ مگوئیاں اور الزامات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، اور ایک بار پھر بوئنگ کمپنی کا نام زیر بحث ہے۔ اگرچہ تحقیقات ابھی جاری ہیں، تاہم بوئنگ کی سابقہ غفلتوں اور اخلاقی کمزوریوں کی وجہ سے اس کمپنی پر شکوک کی فضا پہلے سے موجود ہے۔ حال ہی میں، بوئنگ نے دو مہلک 737 میکس حادثات کے مقدمے سے بچنے کے لیے امریکی محکمہ انصاف کے ساتھ 1.1 ارب ڈالر کا تصفیہ کیا، اور یہ تسلیم کیا کہ اس نے فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن کو گمراہ کیا تھا۔
ایوی ایشن کے شعبے میں جلد باز فیصلے ماضی میں بھی نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں۔ 1990 میں بنگلور میں ایک طیارے کے حادثے کے بعد اُس وقت کے وزیر ہوا بازی نے پورے بیڑے کو گراؤنڈ کر دیا تھا، لیکن چند ہی دنوں بعد یہی طیارے کویت سے بھارتیوں کو نکالنے کے لیے استعمال کیے گئے۔ ایسے فیصلے نہ صرف انتظامی الجھنیں پیدا کرتے ہیں بلکہ عوام کے اعتماد کو بھی مجروح کرتے ہیں۔
ہوابازی ایک ایسا عالمی صنعت ہے جہاں حفاظت اور منافع کے درمیان توازن اکثر بگڑ جاتا ہے۔ جب کمپنیاں منافع کے حصول کیلئے شفافیت اور نگرانی کے اصولوں کو پس پشت ڈال دیتی ہیں، تو اس کے نتیجے میں ایسے المیے جنم لیتے ہیں جو صرف تکنیکی ناکامی نہیں بلکہ اخلاقی غفلت کا عکس بھی ہوتے ہیں۔
اہم سوال یہ ہے: کیا ہوابازی کی صنعت میں حفاظتی معیارات پر پوری طرح عمل ہو رہا ہے؟ کیا طیاروں کی جانچ پڑتال غیر جانب دارانہ ہے؟ اور کیا عالمی سطح پر نگرانی کرنے والے ادارے آزاد ہیں یا صنعت کے دباؤ کے تحت کام کر رہے ہیں؟ بوئنگ جیسے ادارے کا عدالت میں تسلیم کرنا کہ اس نے جان بوجھ کر ضوابط کو متاثر کیا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ معاملہ محض ایک پرواز تک محدود نہیں بلکہ ایک گہرے نظامی بحران کی علامت ہے۔
حادثے کے متاثرین اور ان کے اہل خانہ انصاف اور سچ کے متقاضی ہیں۔ بلیک باکس کی بازیابی سے امید ضرور بندھی ہے، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا تحقیقاتی عمل شفاف، غیر جانب دار اور نتائج پر مبنی ہو گا؟ اگر نہیں، تو یہ سانحہ بھی دیگر حادثات کی طرح محض ایک عدد بن کر رہ جائے گا۔
لہٰذا اس وقت جذبات پر قابو پانا اور صبر سے تحقیقات کا انتظار کرنا ضروری ہے۔ ذمہ داری کا تعین ٹھوس شواہد کی بنیاد پر ہونا چاہیے، نہ کہ جذبات یا مفروضوں پر۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ عالمی ہوابازی کے نظام کو بھی اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے — کیا وہ انسانی جان کو منافع پر فوقیت دے رہا ہے یا نہیں؟ کیونکہ اگر اس سانحے سے سبق نہ سیکھا گیا، تو ایسی دلخراش کہانیاں دہراتی رہیں گی۔