Premium Content

Add

یوتھ کا پاکستان

Print Friendly, PDF & Email

پاکستان کی دو تہائی آبادی پینتیس سال سے کم عمر جوانوں پر مشتمل ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہر زاویے سے آبادی کی ساخت کو سمجھا جائے۔ پاکستانی یوتھ تعلیم، روزگار ، کیریئر اور شادی کے بنیادی مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا اور دوسرے رجحانات کی وجہ سے وہ بین الاقوامی زندگی کے معیار سے مکمل طور پر آگاہ ہو چکے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا سیاسی، معاشی اور فلاحی  معیار زندگی دوسرے ممالک سے انتہائی پسماندہ ہے۔ پاکستان میں جہاں آبادی شہروں میں منتقل ہوئی ہے وہاں پر گاؤں بھی معاشرے کی اجتماعی سوچ سے منسلک ہوئے ہیں۔ اس لیے مختلف عناصر کی وجہ سے اب معاشرےکے درمیان رابطے بہتر ہوئے ہیں اور مختلف موضوعات پر مشترکہ رائے بھی قائم ہونا شروع ہوگئی ہے۔

پاکستانی نوجوان بالخصوص اور عوام بالعموم  سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں حکومت کی تمام شاخیں، چاہے مقننہ، انتظامیہ یا عدلیہ ہوں، کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔  انکو یہ بھی معلوم ہے کہ پاکستان میں کسی بھی ادارے نے اپنا کردار احسن طریقے سے  ادا نہیں کیاہے ۔ ان کو یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ حق حاکمیت صرف عوام کی ہے اور کوئی سرکاری ادارہ  اب حقائق کو چھپا نہیں سکتا ۔

وہ سوال پوچھتے ہیں کہ ہماری عدالتیں انصاف کیوں نہیں کرتیں؟ وہ سوال پوچھتے ہیں کہ ہماری بیوروکریسی اور پولیس کا عوام کے ساتھ کوئی تعلق کیوں نہیں ہے ؟ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ سیاست چند خاندانوں کی میراث ہے اورطاقتور حلقے  ان کو  کنٹرول کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ رول آف لاء اور آئین کی حکمرانی صرف باتوں تک محدود ہے۔ انکو یہ بھی معلوم ہے کہ تمام سرکاری ادارے جھوٹ مگر مسلسل جھوٹ بولتے ہیں اور اس کام میں انکو کمال مہارت حاصل ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سرکاری ادارے اصل میں ادارے نہیں بلکہ شخصیات یا مفاداتی گروہ ہیں۔

مگر سب سے اہم یہ ہے کہ عوام سمجھتی ہے کہ ملک کا انتظام اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہے اور اشرافیہ کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے۔ جہاں وہ اب تمام پلیئرز کی چالوں کو سمجھتے ہیں وہاں پر انکو معلوم ہے کہ میڈیا ایک کاروباری صنعت ہے اور لوگوں کو بلیک میل کرنے کا ایک  ٹول ہے۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ سرکاری ادارے نیب، اینٹی کرپشن ، عدلیہ، بیوروکریسی ، پولیس کو صرف طاقتور لوگ استعمال کرتے ہیں۔ وہ اب یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ ایک استحصالی نظام ہے اور عام عوام کا اس نظام سے کوئی تعلق نہیں۔

اب جو سب سے بڑا مسئلہ پیدا ہونے جا رہا ہے وہ بیگانگی کا ہے، لوگ نظام حتیٰ کہ ریاست سے بھی بیزار ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ وہ خود کو نظام کا غلام سمجھتے ہیں اور نظام کو ظلم سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس ظالم نظام میں انکا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ وہ کم از کم اپنے حق حاکمیت کے بنیادی حق کو سمجھ چکے ہیں اور کسی بہلاوے میں بھی آنے والے نہیں ۔ کلونیل قانون اور طریقہ جات سے اب انکو قابو نہیں کیا جا سکتا۔ معاشرے میں اس قدر نظام کے خلاف نفرت پیدا ہو چکی ہے کہ کوئی بھی آواز ، لیڈر یا تحریک اسکو لیڈ کرتی رہے گی،  یہ جذبات اب مخصوص شخص تک محدودنہیں رہے۔

پاکستان میں با صلاحیت نوجوانوں کی کمی نہیں ہے۔ شمسی توانائی سے چلنے والی گاڑی ہو یا فارمولا ریسنگ کار تیار کرنے کا مقابلہ، ایک نوجوان خاتون کوہ پیما کی طرف سے سات بر اعظموں کی سات بلند چوٹیاں سر کرنے کا کارنامہ ہو یا پھر عالمی باڈی بلڈنگ مقابلوں میں کامیابیاں، پاکستانی نوجوان کسی میدان میں پیچھے نہیں۔

اس صورت حال میں سب کو نوجوانوں اور عوام کے دل جیتنے کی ضرورت ہے۔ دل صرف اصول اور انصاف سے جیتے جا سکتے ہیں۔ پاکستان میں بنیادی حقوق، رول آف لاء، آئین کی حکمرانی اور سب سے اہم عوام کی حق حاکمیت کو نافذ کرنا ہو گا۔ اب اسکے علاؤہ اور کوئی حل نہیں۔  ایک پر امن اور انصاف پسند معاشرہ ہی ریاست کا ضامن ہوتا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

AD-1