انڈس واٹر ٹریٹی: بڑھتا ہوا بحران اور خطے کا مستقبل

[post-views]
[post-views]

ادارتی تجزیہ

انڈیا اور پاکستان کے درمیان 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی سے طے پانے والا انڈس واٹرز ٹریٹی ایک نایاب مثال رہی ہے کہ کس طرح مستقل کشیدگی، جنگوں اور ایٹمی خطرات کے باوجود ایک معاہدہ قائم رہ سکتا ہے۔ لیکن حالیہ پاہلگام حملے کے بعد، جس میں سیاحوں کی ہلاکت ہوئی، انڈیا نے پہلی بار پانی کے بہاؤ کو یکطرفہ طور پر 24 گھنٹوں کے لیے روک کر، پھر اچانک ایک ریلہ چھوڑ کر اس معاہدے کو غیر یقینی صورتحال میں دھکیل دیا۔

یہ عمل صرف سفارتی نہیں بلکہ ماحولیاتی اور اقتصادی نتائج کا بھی حامل ہے۔ پاکستان، جو دنیا کے سب سے زیادہ پانی کے دباؤ کا شکار ممالک میں سے ہے، انڈس سسٹم پر اپنی 75 فیصد پانی کی ضروریات اور 90 فیصد زرعی پیداوار کا انحصار رکھتا ہے۔ اچانک پانی کی بندش فصلوں کی تباہی اور طویل المدتی طور پر اقتصادی زوال کا باعث بن سکتی ہے، جو شہری ہجرت کو بڑھا سکتی ہے۔

دوسری جانب، انڈیا کے شمالی ریاستیں جیسے جموں و کشمیر، پنجاب اور ہماچل پردیش بھی ان دریاؤں پر توانائی اور زراعت کے لیے انحصار رکھتی ہیں۔ معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی نہ صرف عالمی سطح پر انڈیا کی ساکھ کو متاثر کرے گی بلکہ خطے میں چین جیسے بالادست ممالک کو مداخلت کا جواز بھی دے سکتی ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں، برفانی تودے کے پگھلنے اور بڑھتی ہوئی آبادی کے تناظر میں، پانی اب محض قدرتی وسیلہ نہیں بلکہ ایک اسٹریٹجک ہتھیار بن چکا ہے۔ اگر اس معاہدے کی بنیاد کو کمزور کیا گیا، تو یہ صرف جنوبی ایشیا نہیں بلکہ دنیا بھر میں آبی سفارتکاری کی مثالوں کو خطرے میں ڈال دے گا۔

انڈس واٹر ٹریٹی: بڑھتا ہوا بحران اور خطے کا مستقبل

انڈیا اور پاکستان کے درمیان 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی سے طے پانے والا انڈس واٹرز ٹریٹی ایک نایاب مثال رہی ہے کہ کس طرح مستقل کشیدگی، جنگوں اور ایٹمی خطرات کے باوجود ایک معاہدہ قائم رہ سکتا ہے۔ لیکن حالیہ پاہلگام حملے کے بعد، جس میں سیاحوں کی ہلاکت ہوئی، انڈیا نے پہلی بار پانی کے بہاؤ کو یکطرفہ طور پر 24 گھنٹوں کے لیے روک کر، پھر اچانک ایک ریلہ چھوڑ کر اس معاہدے کو غیر یقینی صورتحال میں دھکیل دیا۔

یہ عمل صرف سفارتی نہیں بلکہ ماحولیاتی اور اقتصادی نتائج کا بھی حامل ہے۔ پاکستان، جو دنیا کے سب سے زیادہ پانی کے دباؤ کا شکار ممالک میں سے ہے، انڈس سسٹم پر اپنی 75 فیصد پانی کی ضروریات اور 90 فیصد زرعی پیداوار کا انحصار رکھتا ہے۔ اچانک پانی کی بندش فصلوں کی تباہی اور طویل المدتی طور پر اقتصادی زوال کا باعث بن سکتی ہے، جو شہری ہجرت کو بڑھا سکتی ہے۔

دوسری جانب، انڈیا کے شمالی ریاستیں جیسے جموں و کشمیر، پنجاب اور ہماچل پردیش بھی ان دریاؤں پر توانائی اور زراعت کے لیے انحصار رکھتی ہیں۔ معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی نہ صرف عالمی سطح پر انڈیا کی ساکھ کو متاثر کرے گی بلکہ خطے میں چین جیسے بالادست ممالک کو مداخلت کا جواز بھی دے سکتی ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں، برفانی تودے کے پگھلنے اور بڑھتی ہوئی آبادی کے تناظر میں، پانی اب محض قدرتی وسیلہ نہیں بلکہ ایک اسٹریٹجک ہتھیار بن چکا ہے۔ اگر اس معاہدے کی بنیاد کو کمزور کیا گیا، تو یہ صرف جنوبی ایشیا نہیں بلکہ دنیا بھر میں آبی سفارتکاری کی مثالوں کو خطرے میں ڈال

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos