پاکستان میں صنفی برابری کا بحران

[post-views]
Gender equality definition is the state in which access to rights or opportunities is unaffected by gender.
[post-views]

آمنہ یوسف

عالمی صنفی فرق کی رپورٹ 2025 نے پاکستان کے لیے ایک تشویشناک منظرنامہ پیش کیا ہے۔ 148 ممالک کی فہرست میں آخری نمبر، اور صنفی برابری کا تناسب 57 فیصد سے گھٹ کر 56.7 فیصد پر آنا صرف اعدادوشمار کی کمی نہیں بلکہ یہ ایک گہرے سماجی، سیاسی اور ادارہ جاتی بحران کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ رپورٹ ملک کی اُس پالیسی ناکامی کی علامت ہے جس میں خواتین کو قومی ترقی کے عمل سے مسلسل محروم رکھا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کارکردگی چار بنیادی شعبوں میں تشویشناک حد تک کمزور رہی: معاشی شرکت، تعلیم، صحت اور سیاسی شراکت۔ ان تمام شعبوں میں پاکستان کی درجہ بندی یا تو کم ہوئی ہے یا جمود کا شکار ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صنفی مساوات کے لیے سنجیدہ کوششیں ناپید ہیں۔

معاشی شمولیت کے حوالے سے پاکستان کا درجہ 147 ہے، جہاں خواتین کی رسمی لیبر فورس میں شرکت صرف 25 فیصد ہے۔ یہ شرح نہ صرف خطے میں سب سے کم ہے بلکہ مسلسل زوال پذیر بھی ہے۔ سرکاری پالیسیوں میں عدم دلچسپی، کام کے مقامات پر عدم تحفظ، اور خاندانی و سماجی دباؤ نے خواتین کو معاشی خودمختاری سے دور رکھا ہوا ہے۔

تعلیم کے شعبے میں اگرچہ 1.5 فیصد بہتری ریکارڈ کی گئی، لیکن یہ بہتری مردوں کے تعلیمی اندراج میں کمی کے باعث ہے، نہ کہ خواتین کی تعلیمی ترقی کی بنیاد پر۔ دیہی علاقوں میں لاکھوں لڑکیاں اب بھی اسکول سے باہر ہیں، جہاں غربت، کم عمری کی شادی اور ثقافتی رکاوٹیں تعلیم کی راہ میں حائل ہیں۔

صحت اور بقا کے میدان میں پاکستان کا درجہ 131 ہے۔ زچگی کی شرح اموات، غذائی قلت، تولیدی صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی اور دیہی علاقوں میں بنیادی صحت مراکز کا فقدان خواتین کی صحت کے بحران کو نمایاں کرتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے صحت کے بجٹ میں خواتین کے لیے کوئی نمایاں ترجیح نہیں دی گئی۔

سیاسی اختیارات کے حوالے سے پاکستان کا درجہ 118 ہے۔ اگرچہ پارلیمان میں خواتین کی موجودگی ہے، لیکن ان میں سے اکثر کوٹہ سسٹم یا خاندانی تعلقات کی بنیاد پر ایوان میں پہنچی ہیں، جن کی سیاسی حیثیت نمائشی ہے۔ جماعتوں کے اندر خواتین کی قیادت کی تربیت کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں، جس کے نتیجے میں وہ پالیسی سازی میں مؤثر کردار ادا نہیں کر پاتیں۔

سب سے زیادہ تشویشناک پہلو خواتین کے خلاف بڑھتا ہوا تشدد اور انصاف کی فراہمی کا فقدان ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہر دو منٹ بعد ایک خاتون جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہے، جبکہ ریپ کے مقدمات میں سزا کی شرح محض 3 فیصد ہے۔ پنجاب میں سال 2024 میں 60,217 مقدمات درج ہوئے، جن میں صرف 924 افراد کو سزا ہوئی جبکہ 2,388 ملزمان پولیس کی نااہلی کے باعث بری ہوگئے۔ یہ اعدادوشمار ایک ایسے نظامِ انصاف کی تصویر پیش کرتے ہیں جو نہ صرف ناکام بلکہ خود خواتین کے خلاف ایک ہتھیار بن چکا ہے۔

حیران کن طور پر خواتین رہنماؤں کی خاموشی اور مصلحت پسندی بھی ان ساختیاتی مسائل کو مزید تقویت دیتی ہے۔ وہ نظام کو چیلنج کرنے کی بجائے اُس کا حصہ بن چکی ہیں، جس سے تبدیلی کی امید مزید معدوم ہوتی جا رہی ہے۔

رپورٹ میں کچھ بین الاقوامی تضادات بھی موجود ہیں، مثلاً افغانستان جیسا ملک جس نے خواتین پر بدترین پابندیاں عائد کی ہیں، فہرست میں شامل نہیں، جبکہ پاکستان جنگ زدہ ممالک جیسے سوڈان اور یمن سے بھی نیچے ہے۔ یہ امر رپورٹ کی طریقۂ کار پر سوال ضرور اٹھاتا ہے، لیکن پاکستان کی اپنی زمینی حقیقت اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔

یہ بھی تسلیم کرنا ضروری ہے کہ پاکستان میں خواتین کی ایک بڑی تعداد غیر رسمی معیشت میں کام کرتی ہے، جن کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ اگر ان کے کردار کو اعدادوشمار میں شامل کیا جاتا تو شاید درجہ بندی میں تھوڑی بہتری آتی، لیکن اس کی بنیاد پر موجودہ بحران کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

اب وقت آ چکا ہے کہ صنفی مساوات کو قومی ترقی کے مرکز میں رکھا جائے۔ خواتین کی معاشی شرکت کو فروغ دینے، تعلیم اور صحت کی سہولیات میں بہتری لانے، اور انصاف کے نظام میں اصلاحات کے بغیر ترقی محض ایک سراب ہی رہے گی۔

یہ رپورٹ صرف درجہ بندی نہیں، بلکہ پاکستان کے اجتماعی ضمیر کے لیے ایک سوال ہے۔ جب تک خواتین کو مساوی حقوق، مواقع اور تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا، ملک کی ترقی کا کوئی تصور ممکن نہیں۔ صنفی مساوات کوئی مغربی ایجنڈا نہیں، بلکہ قومی بقا اور خوشحالی کی بنیادی شرط ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos