عدالتی فیصلے نے پارلیمانی نمائندگی کا منظرنامہ بدل دیا – عوامی نمائندگی کیوں ضروری ہے؟

[post-views]
[post-views]

بلاول کامران

پاکستان کی آئینی عدالت نے ایک اہم اور دور رس فیصلے میں سپریم کورٹ کے پچھلے حکم کو کالعدم قرار دے دیا ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں سے محروم کر دیا گیا ہے۔ خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص یہ 77 نشستیں اب دوسری سیاسی جماعتوں کو دی جائیں گی، جس سے نہ صرف پارلیمانی طاقت کا توازن تبدیل ہو گیا ہے بلکہ حکومتی اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔ یہ فیصلہ صرف سیاسی نہیں بلکہ جمہوری نمائندگی کے بنیادی اصولوں پر بھی سوال اٹھاتا ہے۔

نمائندگی کسی بھی جمہوریت کی روح ہوتی ہے۔ ووٹرز جب کسی امیدوار کو منتخب کرتے ہیں تو وہ چاہتے ہیں کہ ان کی آواز پارلیمان میں سنی جائے۔ مخصوص نشستیں کمزور طبقات کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے رکھی جاتی ہیں تاکہ وہ بھی قانون سازی کے عمل کا حصہ بن سکیں۔ لیکن اگر یہ نشستیں قانونی موشگافیوں کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کو دی جائیں، بجائے اس کے کہ عوامی حمایت کی بنیاد پر دی جائیں، تو یہ ووٹر کے حقِ نمائندگی کی خلاف ورزی ہے۔

اس فیصلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف، جو عوامی حمایت کی ایک مضبوط بنیاد رکھتی ہے، عملی طور پر مخصوص نشستوں سے محروم ہو گئی ہے۔ فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی تھی تاکہ وہ پارلیمانی شناخت حاصل کر سکیں۔ تاہم، عدالت نے اب یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ مخصوص نشستوں کا حق صرف اُن سیاسی جماعتوں کو ہے جنہوں نے الیکشن کمیشن کے ساتھ باقاعدہ رجسٹریشن کے تحت انتخابات میں حصہ لیا ہو۔

یہ فیصلہ محض قانونی معاملہ نہیں بلکہ ووٹر کی آواز کو دبانے کے مترادف ہے۔ جو لوگ پی ٹی آئی کو ووٹ دے کر اسمبلی میں بھیجنا چاہتے تھے، اب وہ عملاً نمائندگی سے محروم کر دیے گئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ لاکھوں ووٹ ضائع ہو گئے، نہ کسی جماعت کے کھاتے میں گئے، نہ کسی قانون سازی کا حصہ بنے۔

یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب ملک میں سیاسی تناؤ پہلے ہی عروج پر ہے۔ حکومتی اتحاد کو حاصل ہونے والی دو تہائی اکثریت جہاں ایک طرف قانون سازی میں استحکام لا سکتی ہے، وہیں دوسری طرف اپوزیشن کی غیر موجودگی میں جمہوری احتساب کا عمل بھی شدید متاثر ہو سکتا ہے۔ جب پارلیمان میں صرف ایک آواز سنائی دے، تو جمہوریت کا توازن بگڑ جاتا ہے۔

عدالتی عمل بھی اس کیس میں مکمل طور پر متفق نہیں تھا۔ کچھ ججز نے پچھلے فیصلے کو جزوی طور پر برقرار رکھا، جبکہ کچھ نے اس پر نظرثانی کر کے اپنا مؤقف تبدیل کیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ پی ٹی آئی کو کم از کم 39 نشستیں ملنی چاہئیں۔ اس عدالتی اختلاف نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ نظامِ انصاف میں بھی سیاسی مقدمات پر مکمل ہم آہنگی موجود نہیں۔

جسٹس صلاح الدین پنہور کی کیس سے علیحدگی نے عدالتی کارروائی کی سنجیدگی کو مزید نمایاں کیا۔ انہوں نے وکیل حامد خان کی طرف سے اعتماد نہ ہونے کے اظہار کے بعد خود کو کیس سے الگ کر لیا۔ یہ ایک ادارہ جاتی رویہ تھا، لیکن ساتھ ہی یہ اس بات کا بھی اشارہ تھا کہ عدالتی کارروائیاں اب صرف قانون نہیں بلکہ شخصیات پر بھی منحصر ہو چکی ہیں۔

اس فیصلے نے انتخابی قوانین کی خامیوں کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ جب ایک بڑی سیاسی جماعت کو ٹیکنیکل بنیادوں پر انتخابات میں حصہ لینے سے روکا جائے اور بعد ازاں اس کے امیدوار آزاد حیثیت میں جیت کر اسمبلی پہنچیں تو ان کی سیاسی شناخت کو تسلیم نہ کرنا عوامی مینڈیٹ کی نفی ہے۔ اس سے نہ صرف پی ٹی آئی کو نقصان ہوا بلکہ پورے جمہوری نظام کو دھچکا لگا۔

مخصوص نشستوں کا مقصد اُن طبقات کو نمائندگی دینا تھا جو اکثریتی نظام میں پیچھے رہ جاتے ہیں، جیسے خواتین اور اقلیتیں۔ مگر اب یہ نشستیں طاقتور سیاسی جماعتوں کو مزید طاقت دینے کا ذریعہ بن گئی ہیں۔ جب ان نشستوں کا استعمال محض سیاسی اکثریت کو مستحکم کرنے کے لیے کیا جائے، تو یہ ان کے اصل مقصد سے انحراف ہے۔

سیاسی استحکام کے نام پر اگر مخالف آوازوں کو دبایا جائے تو یہ جمہوریت نہیں بلکہ اکثریت کا استبداد ہوتا ہے۔ پاکستان کے عوام کو ایک ایسا نظام درکار ہے جو ان کے ووٹ کا احترام کرے، نہ کہ اسے عدالتی تشریحات یا قانونی خلا کی نذر کر دے۔ ووٹ کا مطلب صرف کاغذ پر نشان لگانا نہیں بلکہ اپنی آواز، اپنی شناخت اور اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے۔

یہ فیصلہ بظاہر آئینی پیچیدگیوں کو سلجھانے کے لیے کیا گیا ہے، مگر اس نے عوامی نمائندگی کے بنیادی اصولوں کو چیلنج کیا ہے۔ جمہوریت محض انتخابات کا نام نہیں بلکہ عوامی ارادے کو ادارہ جاتی شکل دینے کا نام ہے۔ اگر عوام کے ووٹ کو ادارے تسلیم نہ کریں، تو پھر عوامی اعتماد کا بحران جنم لیتا ہے۔

وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کا سیاسی اور عدالتی نظام خود کو جدید جمہوری اصولوں کے مطابق ڈھالے۔ ایسے قوانین اور اصول وضع کیے جائیں جو عوامی مینڈیٹ کو مرکزی حیثیت دیں۔ مخصوص نشستیں اپنی اصل روح کے مطابق انہی جماعتوں کو ملنی چاہئیں جنہیں عوام نے حقیقی مینڈیٹ دیا ہو، نہ کہ انہیں جو محض قانونی حیثیت رکھتے ہوں۔ ورنہ یہ نظام عوام کے لیے نہیں، طاقتوروں کے لیے رہے گا۔ اور اگر عوام کی آواز اسمبلی میں نہ سنی گئی، تو جمہوریت کا مستقبل غیر یقینی رہے گا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos