تحریر: شفقت اللہ مشتاق
پورے کرہ ارض پر ہر علاقے کا اپنا کلچر ہے اور یوں پوری دنیا رنگ برنگی لگتی ہے۔ دنیا کی بے شمار خوبصورت چیزوں میں سے ایک خوبصورت چیز عورت بھی ہے ویسے تو بقول حضرت علامہ محمد اقبال وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔ ایسے تو نہ حضرت آدم کے فوری بعد اماں حوا کو پیدا کیا گیا تھا اور اب تاریخ آدم و حوا سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ہر دو نفوس شاید لازم و ملزوم تھے ورنہ نسل انسانی کا پہیہ چل ہی نہیں سکتا تھا۔ روایت میں آتا ہے دو مختلف علاقوں میں اتارے گئے مذکورہ افراد دنیا کے اس لق و دق صحرا میں کتنے دن ایک دوسرے کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے ہوں گے اور پھر اچانک ایک دوسرے کے سامنے آگئے ہوں گے۔ ایک دوسرے کواپنے آمنے سامنے پا کر کس قدرخوش ہوئے ہوں گے۔ سماج کب کسی کو ایک ہوتا دیکھ سکتا ہے وہ بھی کمر کس لیتا ہے اور ایک ہونے والوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتا ہے۔ سازش کے تحت مرد کو باقاعدہ احساس دلایا جاتا ہے کہ تم طاقتور ہو تم کو کم از کم بیوی کے نیچے نہیں لگنا ورنہ تم دیوار کے ساتھ لگ جاؤ گے۔ اسی فکر کے تحت بے شمار آدم کی بیٹیاں دیوار میں چن دی گئیں اور ان کے گرد نام نہاد غیرت کی دیواریں بلند کر دی گئیں لیکن فطرت کے خلاف ایک خاص حد تک آپ جا سکتے ہیں ورنہ فطرت بھی سر چڑھ کے بولتی ہے اور پھر دیواریں پھلانگی جاتی ہیں۔شملے گرتے ہیں اور بے شمار بیٹیاں زندہ درگور کر دی جاتی ہیں۔ مرد کو عورت پر فوقیت حاصل ہے۔ اس بیانیہ کو بالکل ہی غلط معنی پہنا کر مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا جاتا ہے اور پھر لڑائی جھگڑا اور پھر مار کٹائی۔کچھ عورتیں تو ویسے ہی مار دی جاتی ہیں اور کچھ جیتی جاگتی مار دی جاتی ہیں۔ ہمارے پڑوس میں ایک کڑیل جوان رہتا تھا جس کی دو بیویاں تھیں اور ہر پانچ سات دن بعد وہ ان کو لاتوں مکوں اور ڈنڈوں سے مارنا شروع کر دیتا تھا اور پورے گاؤں میں ایک عجیب سین پیدا ہو جاتا۔ عورتیں خوفزدہ ہو جاتی تھیں۔ مرد مزید چھاتی تان لیتے تھے اور بچے سبق حاصل کرتے تھے ۔ جاہل طبقہ اس واقعے کو غیرت سے منصوب کرتا اور پڑھا لکھا طبقہ اس کو جہالت سمجھتا۔ یوں ملا جلا تاثر ہوتا تھا۔ بہر حال کوئی بھی اس ظالم انسان کا ہاتھ نہ پکڑتا۔ اور یہ اپنے گھر میں ہی اپنی بیویوں کو فتح کرنے میں اپنی توانائیاں ضائع کردیتا۔ میں کئی دفعہ سوچتا ہوں کہ جتنا وہ کڑیل جوان تھا اگر اس کو محاذ پر بھیج دیا جاتا تو پانچ سات ہندو تو یہ مذاق مذاق میں ہی دوزخ رسید کردیتا۔
اپنا زور دکھانے کے لئے مرد اونچی آواز میں بات کرتا تھا۔ عورت کی نظریں نیچی رکھنے کو یقینی بناتا تھا۔ گالی گلوچ تو معمول کی بات تھی اور اوپر سے تھپڑوں کی بارش۔ یہ سارا کچھ مرد کی طاقت کا اظہار تھا اور ٹیڑھی پسلی سے تخلیق کی گئی عورت کو سیدھا کرنا بہت ضروری سمجھا جاتاتھا۔ ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے یوں بسا اوقات عورت ویسے ہی سیدھی ہو جاتی تھی اور پھر پریں پنچائیت،دھمکیاں ومکیاں،لڑائیاں جھگڑے، عدالتی شادیاں اور بالآخر خون خرابہ۔ دشمنیاں اور وہ بھی کئی نسلوں تک چلتی تھیں۔ یوں زمانہ جاہلیت کی یاد تازہ ہوجاتی تھی۔ کون ہم سب کو بتائے کہ زمانہ جاہلیت کی عمارت کو قرآن و سنت سے مسمار کیا گیا تھا۔ کوئی تو سورہ نسا پڑھ کر ابن آدم کی آنکھ کھولے۔جوں جوں نسل انسانی کوعلم کے زیور سے آراستہ کیا جائے گا جہالت دم دبا کر بھاگے گی اور بھر ماں بہن بیوی اور بیٹی کے رشتوں کا تقدس بحال ہو جائیگا۔ کسی ماں کو اس کے بیٹوں کی موجودگی میں دربدر نہیں کیا جائیگا۔ کسی بہن کو سسرالی جبر کے سامنے گھٹنے ٹیک کر مرنے نہیں دیا جائیگا۔ اور کوئی بیٹی جہیز کی لعنت کی بدولت بابل کے گھر بیٹھ کر بال سفید کرنے پر مجبور نہیں ہوگی۔ اور کوئی خاوند اپنی بیوی کو مسخر کرنے کے لئے اپنے آپ کو مولا جٹ نہیں بنائے گا۔ ایک خواب دیکھا گیا اور پھر سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کا بھی ہڑ آگیا۔ ہم سب پڑھے لکھے ہوگئے۔ پڑھائی کے میدان میں عورتیں مردوں سے سبقت لے گئیں اور میدان عمل میں مرد اور عورتیں شانہ بشانہ کام کرنے لگ گئے۔ ترقی کا ایک نیا دور شروع ہو گیا۔ مگر مذکورہ خواب آج تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.
آج کی تازہ خبر ہے کہ پاکستان کے معروف صحافی ایاز امیر کے بیٹے نے اپنی تین مہینے پہلے بننے والی دلہن کو قتل کردیا ہے۔ اصل وجہ ابھی تک سامنے نہیں آسکی ہے۔ بالآخر آجائیگی اور وہ ہوگی بدزنی، کردار پر شک، رویوں کا مسئلہ،مشترکہ خاندانی نظام، ہر دو میں سے ایک کا یا دونوں کا نفسیاتی مسئلہ وغیرہ وغیرہ بلکہ اس تعلیم یافتہ طبقہ میں بھی غیرت کا مسئلہ مکمل طور پر نہیں مر سکا اور شاید مر بھی نہیں سکے گا البتہ مزید کئی مرد و زن مار دے گا۔ ایاز امیر ایک روشن خیال اور سنجیدہ انسان ہیں ان کی میڈیا پر گفتگو سن کر میں کئی دفعہ اپنے ملک و قوم کے بارے میں سنجیدہ ہوا ہوں لیکن اپنے کب بات سنتے ہیں۔ مذکورہ واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی فکر انگیز گفتگو کا ان کے بیٹے کی تعلیم و تربیت پر کوئی اثر نہیں ہوا ہے۔ ورنہ میاں بیوی کے اختلاف کے نتیجے میں کئی آپشن ہوتے ہیں اور حتمی آپشن قتل و غارت۔ تعلیم اور تربیت لازم و ملزوم ہیں۔ ہمارا سارا زور شاید تعلیم پر ہے اور معاملات کے لئے ہم مغرب کی طرف دیکھ رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ یہ ایک شتر بے مہار معاشرہ ہے جہاں اپنے جسم پر اپنی مرضی چلتی ہے۔ جہاں کوئی کسی کا استحقاق نہیں۔ ماں باپ کا تربیت میں محدود رول ہے۔ اخلاقیات کا ہماری ذاتی زندگی میں کیا عمل دخل ہے وغیرہ وغیرہ۔ مشرق میں رہ کر مغرب کی باتیں کرنا اور پھر راتوں رات مغربی نظام معاشرت کو اپنے اوپر مسلط کرنا۔ یوں بات کے بتنگڑ بنتے ہیں اور پورا جنون نفسیاتی مریض ہوجاتا ہے۔ شعبہ طب کا خیال ہے کہ نفسیاتی مریض تو کچھ بھی کر سکتا ہے۔ ایسے تو نہ اسلام آباد جیسے پررونق شہر میں نور مقدم کو بے رحمی سے قتل کردیا جاتا ہے۔ شیخ انیس اپنی بیٹی کی سہیلی کی تذلیل کر کے سوشل میڈیا پر خوفناک تاثر پیدا کرتا ہے اور پھر ابن ایاز امیر اپنی ہی بیوی کو بے دردی سے قتل کردیتا ہے۔
اس ساری صورتحال پر آئیے مل بیٹھ جاتے ہیں اور سر جوڑ کر اپنی نوجوان نسل اور اولاد آدم کے سامنے اس مسئلے کا حل پیش کرتے ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں کوالٹی ایجوکیشن کو یقینی بنانا ہوگا۔خاندانی نظام کے بدلتے رجحانات کے تحت رہن سہن کے طریقوں کا تعین کرنا ہوگا۔ مرد اور عورت خصوصاً میاں بیوی کے تعلقات کی نوعیت اور اس کے نتیجے میں رویوں کی بنت کا ازسر نو جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔ موجودہ صورتحال کا نوجوانوں میں شعوری احساس پیدا کرنا بھی اس مسئلے کے حل کے لیے اشد ضروری ہے۔ مرد کے جذبہ برتری کے اجزائے عنصری اس پر واضح کرنا بھی ضروری ہیں۔عورتوں کو ان کے معاشرتی مقام کا احساس دلانا اور پھر ان کے ہر فعل کی حساسیت کے بارے میں ان کے درمیان آگاہی پیدا کرنا بھی اس مسئلے کے حل کا اہم جزو ہے۔ روز مرہ معاملات خصوصاً خانگی زندگی کے بارے میں اسلام کی اصل تعلیمات سے نوجوان نسل کو آگاہ کرنا ہوگا۔ عورتوں میں معاشی اور معاشرتی تحفظ پیدا کرنے سے ہی ان کے رویوں میں شدت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ہر دو اصناف کے درمیان اعتماد کی اہمیت کو اجاگر کر کے ہی ان کے درمیان پیار اور محبت کے پودے کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔ جاہل اور پڑھے لکھے میں واضح فرق کی واضح لفظوں میں نشاندھی کرنا ہو گی۔ شک کی بنیاد پر صنف مخالف کو دوش دینے کے اثرات بھی بتانا ہونگے۔