مصنف: ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی
کالم نگار نشترمیڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کاحصہ ہیں۔
کسی نے بالکل بجا کہا تھا کہ ہر شخص کے اندر ہروقت سوچ کاایک محشربرپارہتاہے۔آدمی بھلے اکیلا نظر آتا ہو، اپنی ذات میں انجمن ہوتا ہے۔خلوت میں جلوت اورجلوت میں خلوت کے مزے ہرشخص کوبالکل مفت میسر ہوتے ہیں اوریہ سروس بندے نے خود کو خود ہی فراہم کرنی ہوتی ہے۔ بندہ بھیڑ میں بھی اکیلا ہوسکتا ہے اورتنہا ئی میں بھی پورا میلا ہوسکتاہے۔ بندہ آپ اپنا چیلا ہوسکتاہے اور کریلا ہوسکتا ہے۔ جی ہاں! میرے دوست عمران کاکہنا ہے کہ دردِ دل کے بغیر انسان اور کریلے میں کوئی فرق نہیں بلکہ کریلاکم کڑواہوتا ہے۔ کریلے کو تو پھر نیم پرچڑھناپڑتاہے جبکہ دردِدل سے عاری انسان معاشرے کیلئے آری ہوتا ہے۔ اُس کا وار اپنے اردگرد کے لوگوں کیلئے کاری ہوتا ہے۔ اُس کاوجود دلوں پربھاری ہوتا ہے اوروہ نری خواری ہوتاہے۔
زندگی کے میلے میں ہر شخص کبھی نہ کبھی اکیلا بھی ہوتاہے اور کسی نہ کسی وقت اپنی ذات میں میلا بھی ہوتا ہے۔ کسی سے کھیلا بھی ہوتاہے۔کسی کا”گرو“کسی کا”چیلا“ بھی ہوتا ہے۔اچھا وہی ہے جوزندگی کاچیلا ہے اوراپنی ذات میں لگائے خوشیوں کامیلا ہے بھلے اُس کے پاس پھوٹی کوڑی نہ دھیلاہے۔فرشتوں سے بہتر انسان بننا ہے مگراس میں محنت زیادہ لگتی ہے۔
مٹی کی مورتوں کا ہے میلہ لگا صاحب
آنکھیں تلاش کرتی ہیں انسان کبھی کبھی
زندگی عجیب تماشے کرتی ہے اکثر اوقات ”گرو“ سے پہلے ”چیلا“مارکھاتا ہے مگر بعض اوقات لوگ حیران رہ جاتے ہیں کہ”گرو“ بڑا ہے یا”چیلا“؟۔چیلے چینی ہوجاتے ہیں اور”گرو“کڑھ میں پڑے رہ جاتے ہیں۔ایک اکیلا اور ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں مگرزندگی کی اصل سچائی فقط اتنی ہے۔
دن کو دفتر میں اکیلا شب بھر گھر میں اکیلا
میں کہ عکس منتشر ایک ایک منظر میں اکیلا
ایک شاعر نے بجا کہا تھا کہ ہر انسان دنیا کے میلے میں ایک دلچسپ تماشہ ہے۔ سب کے دُکھ سانجھے ہیں،بندہ غور سے دیکھے تو اُس کو ہراجنبی میں اپنا عکس نظر آتاہے۔کچھ لوگ فطرتاً رجائیت پسند ہوتے ہیں اُن کاایمان اس بات پر ہوتا ہے کہ بھلے ہر شخص بھری دنیا میں منزل کی طرف اکیلاسفرشروع کرتاہے۔لوگ مگر ساتھ ملتے رہتے ہیں اورکارواں بنتاجاتاہے۔
جدید دورکے مگراپنے مزے اوراپنے المیے ہیں۔حساس لوگوں کاایک دُکھ یہ بھی ہے کہ یوں تو ہرشخص بھری دنیا میں اکیلا ہے مگر تنہائی پھر بھی ہردل کے مقدر میں نہیں ہے۔ آج کاشاعر اپنی غزل سناکے اکیلاکھڑارہتاہے اورسننے والے سب اپنے اپنے چاہنے والوں میں کھو جاتے ہیں۔ جاوید شاہین نے بہت خوبصورت بات کہی تھی۔
جدا تھی بام سے دیوار در اکیلا تھا
مقیم تھے خود میں مگن اور گھر اکیلا تھا
جمادات،نباتات،حیوانات سے بہت بہتر ہے اشرف المخلوقات۔لیکن الہامی کتاب، جس کا ہرلفظ ابدی سچائی ہے، بعض انسانوں کی بابت یہ فیصلہ صادرکرچکی ہے کہ وہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔نظریہ ارتقاء کے بارے میں بحث ہوتی رہتی ہے مگر یہ بات بحث سے بالاترہے کہ بعض انسانوں کواُن کے اعمال کے باعث جانوربنادیاگیا۔انگریزی زبان کے ایک محاورے کے مطابق اعمال ہی زندگی کا اصل پیمانہ ہے۔باقی تو سب دنوں کی گنتی ہے۔اعمال ہی کمال ہیں،اعمال ہی زوال ہیں،اعمال ہی جنجال ہیں،اعمال ہی عمال ہیں۔آخرت میں ہماری نجات کا دارومدار اوردنیا میں ہماری عزت اورذلت کا انحصارہمارے اعمال پر ہے۔اصل ساتھ اعمال کا ہے۔ بندہ جب یہاں سے جائے گا تو سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا۔صرف اعمال کا دفتر ہمراہ ہوگا۔ باقی سب کچھ یہیں دھرا رہ جائے گا کچھ کام نہ آئے گا۔رائی برابرنیکی اوربُرائی بھی دکھادی جائے گی۔اعمال کی پرچی کسی نہ کسی ہاتھ میں تھمادی جائے گی۔ جس کادایاں ہاتھ خالی رہ گیا،وہ ناشاد ہوا،برباد ہوا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ایسے اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے جواُس کے پسندیدہ بندوں نے کیئے اورہمیں ایسے تمام افعال سے محفوظ رکھے جن کے مرتکب اُس کے غضب کے مستحق ٹھہرے۔درحقیقت وہی لوگ ہیں اندھے اور گونگے بہرے جن کے دلوں پرلگے ہیں پہرے۔اللہ تعالیٰ ہماری دنیا اورآخرت بہترین کردے اورہمیں تمام بھلائیاں عطا فرمائے۔آمین۔
قبر پر کیا ہوا جو میلا ہے
مرنے والا نرا اکیلا ہے