آپ بھی فیل ہی ہوں گے

[post-views]
[post-views]

تحریر :  ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی

کالم نگار نشترمیڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کاحصہ ہیں۔

چھوٹے شہروں میں مقابلے کابڑا امتحان پاس کرنے کیلئے طلباء کی کثیرتعدادمیں ہرسال مقابلہ ہوتاہے۔ والدین بچوں کوافسر بنانے کیلئے ہرطرح کی تکالیف برداشت کرتے ہیں مگر ہمت نہیں ہارتے۔ایک دفعہ پبلک سروس کمیشن کاامتحان چند سالوں کے تعطل کے بعد ہوا۔ہزاروں لوگ امتحان میں شریک ہوئے۔ پاس ہونے والوں کی تعدادانگلیوں پرگنی جاسکتی تھی۔ایک شہر کے دو دوستوں نے بھی امتحان دیاہواتھا۔دونوں کونتیجے کابے صبری سے انتظار تھا۔ آخررزلٹ آگیا۔ایک دوست نے دوسرے کو فون کرکے بتایاکہ صرف چند لوگ کامیاب ہوئے ہیں جن میں ایک نام اُس کااپنا بھی ہے۔ دوسرے دوست نے اپنی بابت پوچھا تو بتایاکہ ہزاروں لوگ فیل ہوئے ہیں، آپ بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ ناکام امیدوار کو بہت صدمہ ہوا۔دن بھر لوگ افسوس کیلئے آتے رہے۔ افسوس کرنے والوں کے افسوس کرنے کے طریقے اورالفاظ کا بھی کئی دفعہ گہرا صدمہ ہوا۔ اُن دنوں رزلٹ صوبائی دارالحکومت میں آویزاں کیاجاتاتھا۔ جدیدسہولیات نہ تھیں۔ اگلے دن ناکام امیدوار کو دارالحکومت کے رہائشی ایک دوست نے ٹیلی فون کیا۔پوزیشن حاصل کرنے پر مبارک دی۔ناکام امیدوارکو لگاکہ دوست مذاق میں حد سے گزر رہے ہیں۔ رزلٹ بتانے والے نے قسم کھائی کہ وہ اس وقت رزلٹ آویزاں ہونے والی جگہ پر ذاتی طور پر موجود ہے اور جو بات کہہ رہا ہے پوری ذمہ داری سے کہہ رہا ہے۔ اُس نے ساتھ کھڑے کئی لوگوں سے بھی اپنی بات کی تصدیق کروائی۔ سابقہ ناکام امیدوارنے کامیاب امیدوار دوست کوفون کرکے غلط رزلٹ بتانے کاگلہ کیا تو جواب ملا ”معاف کرنا یار۔ میں نے صرف اپنا رزلٹ چیک کروایاتھا۔ اتنے لوگ فیل تھے کہ مجھے لگاآپ بھی فیل ہی ہوں گے“۔

         ایک صاحب کے بقول ہمارے ہاں کئی لوگوں کے برباد اورشاد ہونے کی وجوہات یکساں ہیں۔دوبنیادی وجوہات کمیشن اورپبلک سروس کمیشن ہیں۔ایک اورصاحب کے بقول ہمارے ملک میں بے جوڑرشتوں کے بنیادی ذمہ داربھی کمیشن اورپبلک سروس کمیشن ہی ہیں۔

         فراز صاحب کا محبوب اوراس کے ہمسائے بھی اِدھر اُدھر کے جلوے دیکھنے کی بجائے بہشت کے نظارے کرسکتے تھے کیونکہ محبوب کی جائے رہائش بہشت سے متصل تھی۔ جو لوگ پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں ناکام ہوجائیں۔وہ اِدھر اُدھر ہوجاتے ہیں اور اِدھر اُدھر دیکھنے کے لائق ہی رہ جاتے ہیں۔ جو لوگ امتحان میں کامیاب ہوجائیں، وہ ہرطرح کے جلوے دیکھ سکتے ہیں اور اُن کے اپنے جلوے بھی دنیادیکھ لیتی ہے۔

         ایک صاحب دیہاتی تھے۔نام سنتے ہی اندازہ ہوجاتا تھاکہ خالصتاً دیہاتی ہیں۔بہت قابل تھے اورمحنت بھی دل لگا کر کرتے تھے۔ وہ اعلیٰ عہدہ پرفائز ہوگئے۔ایک دن ایک خاندانی رئیس، اعلیٰ افسر نے ٹیلی فون پر انہیں کوئی کام کرنے کو کہا۔ انہوں نے فوراً کام کرکے اعلیٰ افسر کو بتایا۔اعلیٰ افسر نے شکریہ ادا کیااورریٹائرمنٹ کے بعد ہرطرح کے تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ ہمارے صاحب نے مودبانہ لہجے میں بتایا کہ وہ مقابلے کے امتحان میں کامیابی حاصل کرکے اس عہدے پر تعینات ہوئے ہیں اورابھی اُن کی سروس کاکافی عرصہ باقی ہے۔ اعلیٰ افسر کوشدید حیرانی ہوئی۔انہوں نے معذرت کی اورکہنے لگے ”آپ کے نام سے اندازہ لگایاکہ آپ شایدترقی کرکے اس مقام پر پہنچے ہیں۔آپ نے اپنانام نہیں بدلا“۔ہمارے صاحب نے وضاحت کی”کام توسارے بدل لیے ہیں۔نام ہی پُرانارہ گیاتھا۔اب آپ نے رہنمائی فرمائی ہے تو وہ بھی فی الفوربدل لیتاہوں“۔

         پبلک سروس کمیشن کاامتحان پاس کرنے سے پہلے انسان کامقابلہ معاشرے کے دیگرافراد سے ہوتا ہے۔اگر امتحان پاس نہ ہوتب بھی اصل مقابلہ دوسرو ں کے ساتھ ہوتاہے۔کامیابی کی صورت میں بندہ اپنا حریف آپ ہی ہوتاہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا تھاکہ اقتدار ملنے کے بعد لوگ بدلتے نہیں بلکہ پہچانے جاتے ہیں۔بعض لوگوں کوکامیابی اتنا بدل دیتی ہے کہ وہ خود سے بھی پہچانے نہیں جاتے۔ایک صاحب ایک دن بہت پریشان تھے۔ ایک دوست نے وجہ پوچھی تو بڑی ندامت سے کہنے لگے”ابھی کچھ دیرپہلے اپنے بچھڑے آپ سے ملاقات ہوگئی۔دل عجیب ساہوگیا۔اپناآپ پہچاناہی نہیں جاتا“۔

         بدقسمتی سے بعض لوگوں کیلئے زندگی صرف مظلوم سے ظالم بننے تک کے سفر کانام ہے۔ مختلف لوگ اس کیلئے مختلف راستے چنتے ہیں۔ نتائج سے لگتا ہے اُن کا نصب العین ایک ہی ہوتاہے۔ایک صاحب بڑے دُکھی دل کے ساتھ کہتے ہیں ” انگریزی لفظ سروس کاایک مطلب مرمت بھی ہوتاہے۔ کئی لوگ سروس کرنے آتے ہیں اورمرمت کرتے رہتے ہیں۔ ایک دن اُن کی روح کو بھی مرمت کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔کئی لوگوں کیلئے یہ دن دورانِ سروس ہی آجاتاہے۔ اکثریت کو مگر اس دن کے آنے کااحساس ریٹائرمنٹ کے بعد ہوتاہے“ ۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos