
محترم سیفی صاحب فلسفے اور جناب کفیل صاحب کے کمال کے آج تک قائل ہیں۔ زندگی میں سب سے پہلے وہ کفیل صاحب کے کمال کے قائل ہوئے۔ جھنگ میں ان کے گھر کے سامنے انتہائی مصروف سڑک تھی جہاں سے ٹریفک چوبیس گھنٹے گذرتی رہتی تھی۔ ہر ٹرک کے اوپر لکھا ہوتا تھا ” رائٹ آرم بولر کفیل بھائی ۔ لیفٹ آرم بولر کفیل بھائی ۔ سپن بولر کفیل بھائی۔ میڈیم پیس بولر کفیل بھائی۔ آف سپنر کفیل بھائی ۔ لیگ سپنر کفیل بھائی۔ فاسٹ بولر کفیل بھائی۔ رائٹ ہینڈڈ بیٹسمین کفیل بھائی۔ دنیا کے مکمل ترین اور بہترین آل رائونڈر کفیل بھائی۔” وہ کفیل بھائی کی نقل کرتے تھے ۔ ان کے اہل علاقہ اور ساتھی کھلاڑی برا نہیں مانتے تھے۔ کیونکہ وہ دائیں اور بائیں ہاتھ سے ایک جیسی خراب بیٹنگ اور باولنگ کرتے تھے۔ خود وہ آج بھی پاکستانی کرکٹ کے زوال کی بنیادی وجہ اپنی صلاحیتوں سے استفادہ نہ کرنا سمجھتے ہیں۔ فلسفے سے تب متاثر ہوئے جب انہیں معرکہ ایف اے و بی اے درپیش آیا۔ ایف اے میں سب سے کم ضخامت والی کتاب فلسفے کی تھی۔ بی اے میں بھی یہی صورتحال تھی ۔ اسی خوبی کی بنا پر انہوں نے فلسفے کے مضمون کا انتخاب کیا اور 33فیصد نمبر لے کر انتہائی اعلی درجے میں کامیاب ٹھہرے۔ وہ خود کو باقاعدہ کرکٹر اور فلسفی سمجھتے ہیں۔ ان کے پسندیدہ فلسفی بہت سے ہیں۔ ایک وہ عظیم شخصیت ہے جو کسی مسئلے کے حل کی بابت ایک جگہ لیکچر دینے گئے تو فرمانے لگے ” اس مسئلے کے صرف دو حل ہیں ۔ایک مجھے یاد نہیں آرہا اور دوسرا میں بھول گیا ہوں۔” مشرقی فلسفیوں میں ان کے پسندیدہ فلسفی کبھی کبھی فقط اس لیئے پریشان ہو جاتے تھے کہ دنیا سے بڑے بڑے فلاسفر رخصت ہوگئے ہیں ۔ ان کی اپنی ذاتی طبیعت بھی خراب رہنے لگی ہے ۔ قوم کا کیا بنے گا ؟ سیفی صاحب کے علاقے کے لوگ اگرچہ فلسفی حضرات کو پسند نہیں کرتے مگر سیفی صاحب کی مقبولیت میں کوئی شبہ نہیں۔ وہ صاف گو بزرگ ، انہی کے گاؤں کے تھے ، جن کا واسطہ انتہائی متجسس طبیعت کے فلسفی سے پڑ گیا۔ بیل کے گلے میں گھنٹی کے بابت انہیں بتایا گیا کہ گھنٹی بجنے سے پتہ چلتا ہے کہ بیل حرکت میں ہے اور اپنے فرائض سرانجام دے رہاہے۔ فلسفی صاحب نے فلسفیانہ استفسار کیا ” اگر بیل کھڑا ہو کر گردن ہلاتا رہے تو گھنٹی پھر بھی بجتی رہے گی” روایتی دیہاتی سادگی سے جواب دیا گیا ” جناب! ہمارا بیل ان پڑھ ہے،فلسفی نہیں۔ اسے ڈرامے بازیاں نہیں آتیں۔” سیفی صاحب کے گاوں کے لوگ پریشان بہت جلدی ہوجاتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہوجاتے ہیں۔ یہ روایت انہیں ورثے میں ملی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران شام کو ایک چاچا جی ڈیرے پر آئے تو بہت پریشان تھے۔ وجہ پوچھی گئی تو کہنے لگے ” آج میرا بیٹا برٹش آرمی کی طرف سے جنگ لڑنے گیا ہے .وہ بھی بڑا اتھرا ہے اور ہٹلر بھی بڑا غصیلا ہے. دونوں میں ٹاکرا ہوگیا تو دنیا کا کیا بنے گا؟ ” سادہ دل دیہاتی معمولی معمولی بات پر اداس بھی ہوجاتے ہیں ۔ یہ بھی بزرگوں کی روایت ہے۔
ایک بزرگ شاہ ایران کے زمانے میں ایران سے واپس آئے تو انتہائی اداس تھے۔ کئی دن لوگ وجہ پوچھتے رہے مگر خاموش رہے۔ آخر ایک دن بتا ہی دیا۔ ” جہاز سے اترا تو شاہ صاحب ائیر پورٹ سے سیدھا گھر لے گئے۔ آپ جانتے ہیں ہماری” خانہ واحدی ” ہے۔ ناشتے کا ٹائم تھا ۔ باورچی خانے گیا تو فرح بھرجائی میرے لیئے آلو والے پراٹھے بنا رہی تھی۔ سلام کیا، حال چال پوچھا تو انتہائی دردناک لہجے میں کہنے لگی کہ آپ کا بھائی خرچہ کم دیتا ہے ۔بڑی پریشان رہتی ہوں۔ واپس تو آگیا ہوں مگر اداسی نہیں جارہی ۔ “سیفی صاحب کے ایک چاچا زاد بھائی قیام پاکستان کے فورا بعد امریکہ شفٹ ہوگئے۔ والدین اور دیگر عزیز و اقارب کو بھی کبھی کبھی امریکہ بلالیتے تھے۔ جب صدر نکسن نے استعفی دیا تو سیفی صاحب کے چاچا کہنے لگے ” بیٹابلا رہاہے ۔ کہتا ہے نکسن نے استعفا دے دیا ہے، کیا پتہ اگلے صد ر آپ ہی ہوں ” ہٹلر اور نکسن کے پائے کے لوگوں سے اپنا آپ منوانا کوئی معمولی کامیابی نہیں ۔
اٹھارہ ہزاری کے تھل واسیوں نے قحط کا لفظ تو نہ صرف سن رکھا تھا بلکہ شاید دنیا میں قحط کا مطلب وہ سب سے زیادہ سمجھتے تھے، سیفی صاحب کی محنت کی برکت سے وہ جان گئے تھے کہ فلسفہ کیا ہوتا ہے ؟ فلسفی کیا ہوتا ہے؟ رجال کا مطلب کیا ہے ؟ قحط الرجال کتنی خطرناک چیز ہے ؟
سیفی صاحب جب بھی آتے تھے ۔ حکمت کے موتی لٹاتے تھے۔ سب کو گھیرتے تھے ، دانش بکھیرتے تھے۔ آج بھی ڈیرے میں کرسیوں اور چارپائیوں پر لوگ بیٹھے تھے، ہر عمر ہر طبقہ فکر کے لوگ۔ ہاؤس فل تھا۔ لوگ مکمل خاموشی سے گاؤں کے سپوت کے خیالات سن رہے تھے۔ . وعظ و تدریس کا بنیادی نکتہ قحط الرجال کا ملال تھا۔ آخر کار بشیرا قصائی بول پڑا.”جناب!آپ بجا فرمارہے ہیں ۔ ہمارے ہاں مدت سے قحط الرجال ہے۔ قحط الرجال وبال ہے، اصل زوال ہے ، باعث ملال ہے۔ مسئلہ قحط الرجال کا کوئی حل بھی ہے، اس ضمن میں ہمارے فلسفی کا کیا خیال ہے؟ سیفی صاحب نے انتہائی مدبرانہ لہجے میں کہا “قحط الرجال کا حل انتہائی آسان ہے اوراپنے تھل میں ہی موجود ہے۔ ” یہ کہہ کر سیفی صاحب خاموش ہوگئے۔ لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ چند لوگوں نے عاجزی سے سر نیچے جھکالیا ۔ بھلے باقی لوگ انہیں مسئلہ ہی سمجھتے ہوں ، وہ خود کو ہر مسئلے کا حل سمجھتے تھے۔،قحط الرجال کیا چیز تھی۔ تادیر خاموشی رہی۔ شادے مصلی سے رہا نہ گیا ۔وہ گھومنے پھرنے والا آدمی تھا۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پی رکھا تھا۔ قدرے طنزیہ لہجے میں پوچھا،”فلسفی صاحب ایسا کون سا حل ہے جو بلخ ،بخارا ،تہران اورازبکستان میں موجود نہیں ، تھل میں موجود ہے اور پورے تھل میں نہ سرکار کو پتہ ، نہ کسی بزرگ کو، فقط آپ ہی جانتے ہیں۔ ذرا ہم بھی تو جانیں تھوڑا گیان ہمیں بھی دیں” ۔ سیفی صاحب تھوڑی دیر ادھر ادھر دیکھتے رہے۔ گہرے سانس لیے ۔ انتہائی مدبرانہ لہجے میں کہنے لگے” مسئلہ قحط الرجال کا حل ہے چنے کی دال” ۔ ڈیرے میں طرح طرح کی آوازیں گونجنے لگیں۔ شادے مصلی نے کہا ” واہ جناب واہ۔ بالکل ٹھیک فرمایا۔ مسئلہ قحط الرجال کا حل واقعی چنے کی دال ہے۔ چنے کی دال اگر پوری دنیا میں جانے لگے تو مسئلہ قحط الرجال حل ہویا نہ ہو، آپ کا سرمائے کا کال ضرور دور ہوجائے گا۔ آپ کے رقبے پر چنے کے علاوہ ہوتا ہی کیا ہے؟ چنا بھاڑ پھوڑے یا نہ پھوڑے، چنے کی دال آپ کو دنیا سے جوڑے ہی جوڑے، کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔ سنتے آئے تھے۔ آج مسئلہ قحط الرجال حل ہوا یا نہیں ، آپ کی ڈگریوں کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے۔ گھر جائیے، آب پیجئے، چنے کی دال کھائیے ، اپنے بزرگوں کے راگ گائیے ۔ شہر کا رخ کریں ۔ آپ تو ملا نصیرالدین اور شیخ چلی سے بھی بڑے دانشور نکلے۔ ہمارے گاؤں کی بساط کیا کہ آپ کی دانش کا متحمل ہوسکے۔ کسی بڑے شہر جائیے ۔ انہیں دانش سکھائیے۔ سیفی صاحب مسکراتے رہے ، دال کھاتے رہے، زیر لب گن گناتے رہے۔ تیرا ایک ہی حل ، اے مسئلہ قحط الرجال، چنے کی دال، چنے کی دال۔